[ریکارڈز] ایک دن میں 18 وکٹیں گرگئیں!
عالمی کپ میں بدترین کارکردگی کے بعد پست حوصلہ انگلستان اور ویسٹ انڈیز اس وقت ٹیسٹ سیریز میں مدمقابل ہیں۔ پہلے ٹیسٹ میں زبردست معرکہ آرائی کے بعد مقابلہ بغیر کسی نتیجے تک پہنچے تمام ہوا تو دوسرے میں انگلستان نے بہترین کارکردگی دکھاتے ہوئے کامیابی حاصل کی۔ اب دونوں ٹیمیں برج ٹاؤن، بارباڈوس کے تاریخی میدان پر مدمقابل ہیں اور پہلے دو دن نے ہی کھلاڑیوں کے ساتھ ساتھ شائقین کے دماغ کی چولیں ہلا دی ہیں۔
برج ٹاؤن ٹیسٹ کے دوسرے روز کے اختتام تک صورتحال یہ ہے کہ انگلستان اور ویسٹ انڈیز کی پہلی اننگز تمام ہوچکی ہیں بلکہ انگلستان کی دوسری اننگز میں بھی آدھی ٹیم میدان سے واپس آ چکی ہے۔ انگلستان کے پہلی اننگز کے اسکور 257 کے جواب میں ویسٹ انڈیز پہلی باری میں صرف 189 رنز پر ڈھیر ہوا اور پھر شاندار باؤلنگ کرکے صرف 39 رنز پر انگلستان کی پانچ وکٹیں سمیٹ لی ہیں۔ محض دوسرے دن 18 وکٹیں گری ہیں جس میں جمی اینڈرسن کی 6 وکٹوں کی کارکردگی سب سے نمایاں ہے۔ اس کے باوجود مقابلہ اب انتہائی دلچسپ مرحلے میں داخل ہوچکا ہے جہاں انگلستان کی برتری محض 107 رنز کی ہے اور اس کی 5 وکٹیں باقی ہیں۔ کریز پر موجود گیری بیلنس اور بین اسٹوکس پر بہت بھاری ذمہ داری عائد ہے اور آنے والے جوس بٹلر، کرس جارڈن اور اسٹورٹ براڈ پر بھی کہ جنہیں آج بارباڈوس میں اسی گیندبازی کا سامنا کرنا ہے جومحض 39 رنز پر ان کے پانچ بہترین بلے بازوں کو ٹھکانے لگا چکی ہے۔
برج ٹاؤن ٹیسٹ کے دوسرے دن کا آغاز اس طرح ہوا کہ انگلستان 7 وکٹوں کے نقصان پر 240 رنز پر کھڑا تھا۔ محض 17 رنز کے اضافے سے ویسٹ انڈیز نے اس کے آخری تین کھلاڑیوں کو ٹھکانے لگایا اور خود بلے بازی کے لیے میدان میں اترا۔ جب اینڈرسن کی تباہ کن باؤلنگ کے سامنے صرف 37 رنز پر چار کھلاڑی آؤٹ ہوئے تو ویسٹ انڈیز کا دماغ ٹھکانے آ چکا تھا۔ یہاں نوجوان جرمین بلیک ووڈ نے ایک اور شاندار اننگز کھیلی۔ ایک ایسی باری میں جہاں دوسرے کنارے سے کوئی 25 سے زیادہ رنز نہیں بنا سکا، بلیک ووڈ نے 88 گیندوں پر 85 رنز بنائے جس میں 11 چوکے اور 4 چھکے شامل تھے۔ ان کی یہ باری ویسٹ انڈیز کو 189 رنز تک لے کر آئی۔ وہ آؤٹ ہونے والے آخری کھلاڑی تھے۔ ویسٹ انڈیز کی اس تباہی کے سب سے بڑے ذمہ دار اینڈرسن تھے جنہوں نے بلیک ووڈ سمیت چھ کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا، وہ بھی محض 42 رنز دے کر۔
68رنز کی برتری لینے کے بعد انگلستان آسمان پر پرواز کر ہی رہا تھا کہ ویسٹ انڈیز نے دن کے آخری سیشن میں اس کے پر کتر دیے۔ پانچویں اوور میں جوناتھن ٹراٹ صرف 9 رنز بنانے کے بعد آؤٹ ہوئے تو اگلے اوور میں پچھلی اننگز کو سنچری ساز ایلسٹر کک محض 4 پر میدان بدر ہوئے۔ پھر این بیل صفر، جو روٹ ایک اور معین علی 8 رنز پر اپنی وکٹیں دے گئے۔ ان میں سے دو وکٹیں جیروم ٹیلر نے حاصل کیں جبکہ ایک، ایک کھلاڑی کو شینن گیبریل، جیسن ہولڈر اور ویراسیمی پرمال نے ٹھکانے لگایا۔
دونوں ٹیموں کے گیندبازوں کی اس تباہ کن کارکردگی کی بدولت ایک ہی دن میں 18 وکٹیں گریں، جو اس جدید عہد میں بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے۔ ایک ایسے زمانے میں جب بلے بازوں کا راج ہے، ایک دن میں 18 وکٹیں گرتے دیکھنا آئی پی ایل میں درجنوں چھکے لگتے دیکھنے سے بھی زیادہ پرلطف منظر تھا۔ لیکن اس واقعے نےذہن میں ایک سوال بھی پیدا کیا کہ آخر کسی بھی ٹیسٹ میں ایک دن میں سب سے زیادہ وکٹیں کب گری ہیں؟ ویسے جدید کرکٹ شائقین تو یہی سمجھ رہے ہوں گے کہ شاید 18 ہی عالمی ریکارڈ ہوگا، لیکن ایسا نہیں ہے۔ ایک دن میں سب سے زیادہ وکٹیں گرنے کا ریکارڈ اس سے کہیں زیادہ ہے۔ جولائی 1888ء میں انگلستان اور آسٹریلیا کے مابین کھیلے گئے ایک ٹیسٹ کے دوران دوسرے دن 27 وکٹیں گری تھیں، جو آج 127 سال گزرنے کے بعد بھی ایک عالمی ریکارڈ ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس فہرست میں دوسرے اور تیسرے نمبر پر بھی بہت پرانے ٹیسٹ مقابلے ہیں۔ جیسا کہ ایک دن میں سب سے زیادہ وکٹیں گرنے کی دوسری سب سے زیادہ تعداد 25 ہے جو جنوری1902ء میں انگلستان اور آسٹریلیا ہی کے ملبورن ٹیسٹ میں دیکھی گئی۔ پھر 24 وکٹیں، جو اگست 1896ء میں انہی دونوں ٹیموں کے اوول ٹیسٹکے دوسرے روز گریں۔
دور جدید میں ہمیں اس کی محض ایک مثال ملتی ہے۔ نومبر 2011ء میں آسٹریلیااور جنوبی افریقہ کا تاریخی کیپ ٹاؤن ٹیسٹ۔ اس مقابلے کی کہانی بھی آغاز میں برج ٹاؤن ٹیسٹ جیسی ہی نظر آتی ہے۔ پہلے دن آسٹریلیا نے 8 وکٹوں پر 214 رنز بنائے اور دوسرے روز 284 رنز پر اپنی پہلی اننگز مکمل کی۔اس کے بعد جو ہوا، وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ جنوبی افریقہ پہلی اننگز میں صرف 96 رنز پر ڈھیر ہوا اور پھر آسٹریلیا کی دوسری اننگز صرف 47 رنز پر تمام کردی۔ اس روز کی آخری وکٹ جنوبی افریقہ کے اوپنر ژاک روڈلف کی تھی، جن کے آؤٹ ہونے کے بعد جنوبی افریقہ مقابلے پر چھا گیا۔ جب دوسرا دن مکمل ہوا تو جنوبی افریقہ کا اسکور صرف ایک وکٹ پر 81 رنز تھا اور وہ 236 رنز کے ہدف کے تعاقب میں تھا۔ دوسرے دن 23 وکٹیں گریں لیکن تیسرے روز آسٹریلیا محض ایک وکٹ حاصل کرسکا اور جنوبی افریقہ نے گریم اسمتھ اور ہاشم آملہ کی سنچریوں کی بدولت باآسانی 8 وکٹوں سے کامیابی حاصل کی۔
ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ میں 30 مواقع ایسے آئے ہیں، جب ایک دن میں 20 یا اس سے زیادہ وکٹیں گری ہوں۔ ہم ذیل میں آپ کو 21 یا اس سے زیادہ وکٹیں گرنے کے واقعات کے اعدادوشمار پیش کررہے ہیں، امید ہے کہ معلومات میں اضافے کا باعث بنیں گے۔
ٹیسٹ میں ایک دن میں گرنے والی سب سے زیادہ وکٹیں
بمقابلہ | دن | بننے والے رنز | گرنے والی وکٹیں | بمقام | بتاریخ | |
---|---|---|---|---|---|---|
انگلستان | آسٹریلیا | دوسرا | 157 | 27 | لارڈز | جولائی 1888ء |
آسٹریلیا | انگلستان | پہلا | 221 | 25 | ملبورن | جنوری 1902ء |
انگلستان | آسٹریلیا | دوسرا | 255 | 24 | اوول | اگست 1896ء |
جنوبی افریقہ | آسٹریلیا | دوسرا | 294 | 23 | کیپ ٹاؤن | نومبر 2011ء |
انگلستان | آسٹریلیا | پہلا | 197 | 22 | اوول | اگست 1890ء |
آسٹریلیا | ویسٹ انڈیز | پہلا | 207 | 22 | ایڈیلیڈ | دسمبر 1951ء |
انگلستان | بھارت | تیسرا | 195 | 22 | مانچسٹر | جولائی 1952ء |
سری لنکا | انگلستان | تیسرا | 229 | 22 | کولمبو | مارچ 2001ء |
نیوزی لینڈ | بھارت | تیسرا | 279 | 22 | ہملٹن | دسمبر 2002ء |
نیوزی لینڈ | زمبابوے | تیسرا | 297 | 22 | نیپئر | جنوری 2012ء |
جنوبی افریقہ | انگلستان | پہلا | 278 | 21 | پورٹ ایلزبتھ | فروری 1896ء |
انگلستان | نیوزی لینڈ | دوسرا | 236 | 21 | برمنگھم | جولائی 1999ء |
انگلستان | ویسٹ انڈیز | دوسرا | 188 | 21 | لارڈز | جون 2000ء |