آل ٹائم الیون کا رکن، لیکن قومی ٹیم سے باہر

1 1,061

کرکٹ اب محض ایک کھیل نہیں رہا، ایک پوری سائنس اور نظام بن چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ محض اچھا کھیلنا کافی نہیں بلکہ اب نظم و ضبط کو بھی اتنی ہی اہمیت دی جاتی ہے، جتنی کہ کھیل کو۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو آسٹریلیا کی تاریخ کے بہترین آل راؤنڈرز میں سے ایک اینڈریو سائمنڈز 'بے آبرو ہوکر' ٹیم سے نہ نکالے گئے ہوتے۔ اس کے باوجود اس ضمن میں جس کھلاڑی کے ساتھ سب سے زيادہ 'زیادتی' ہوئی ہے، وہ انگلستان کے کیون پیٹرسن ہیں۔ ایک ایسا بلے باز جو بلاشبہ اپنے ملک کی تاریخ کے بہترین کھلاڑیوں میں شامل ہونے کا اہل ہے، محض اپنی اور چند لوگوں کی ذاتی انا کی وجہ سے باہر بیٹھا ہے۔

2005ء کی تاریخی ایشیز سیریز نے اپنے کیریئر کا آغاز کرنے والے کیون نے اپنے پہلے ہی ٹیسٹ میں 57 اور 64 رنز کی ناٹ آؤٹ اننگز کھیل کر دنیا کو پیغام دیا تھا کہ ان میں کچھ خاص ہے۔ گو کہ اس ٹیسٹ میں شکست انگلستان کا مقدر بنی لیکن کیون پیٹرسن کی صورت میں انگلستان کو مستقبل کے لیے ایک بہترین بلے باز میسر آیا۔ اسی سیریز کے دوسرے مقابلے میں پیٹرسن نے 71 رنز کی اننگز کھیل کے آسٹریلیا کے لیے خطرے کی گھنٹی بجائی۔ گوکہ دوسری اننگز میں پیٹرسن سمیت پوری انگلش بیٹنگ ایک مرتبہ پھر دھوکا دے گئی، لیکن انگلستان تاریخ کے سنسنی خیز ترین مقابلوں میں سے ایک کی بدولت محض 2 رنز سے مقابلہ جیت گیا۔ پیٹرسن کی آمد انگلستان کے لیے نیک شگون ثابت ہوئی اور اس نے ایک عرصے کے بعد ایشیز سیریز جیت لی۔ اس سیریز کے آخری مقابلے میں پیٹرسن نے 158 رنز کی شاندار باری کھیلی اور روشن مستقبل کی نوید سنا دی۔

اگلا سال، یعنی 2006ء، انگلستان کے لیے برا سہی لیکن پیٹرسن کے لیے شاندار ثابت ہوا۔پہلے آسٹریلیا نے ایشیز میں انگلینڈ کو بری طرح رگڑا اور سیریز کے پانچوں مقابلے جیت کووائٹ واش کیا، لیکن اس سیریز میں بھی پیٹرسن نے کئی اچھی اننگز کھیلیں۔ ویسٹ انڈیز کےخلاف پیٹرسن کی کارکردگی عمدہ تھی۔ اسی بنیاد پر انسال کے بہترین ٹیسٹ کھلاڑی کے اعزاز کے لیے نامزد کیا گیا۔ گو کہ اعزاز پاکستان کے محمد یوسف نے جیتا، سال میں سب سے زیادہ رنز بنانے کے عالمی ریکارڈ کی بنیاد پر، لیکن یہ نوجوان بلے باز کے لیےباعث فخر تھا کہ وہ اپنے انٹرنیشنل کیریئرکے دوسرے ہی سال میں بہترین کھلاڑیوں کی فہرست میں شامل ہوا۔

کیون پیٹرسن اب تک 104 ٹیسٹ مقابلوں کی 118 اننگز میں 47.28 کے اوسط کے ساتھ 8181 رنز بنا چکے ہیں۔ اس میں 35 نصف سنچریاں اور 23 سنچریاں شامل ہیں۔ ان میں سے بھی 3 ڈبل سنچریاں ہیں، جن میں ان کا بہترین اسکور 227 رنز ہے جو انہوں نے 2010ء میں آسٹریلیا کے خلاف بنایا تھا۔

ٹیسٹ کے علاوہ ایک روزہ میں بھی پیٹرسن کی کارکردگی نمایاں رہی ہے۔ ایک زمانہ وہ بھی تھا کہ وہ ایک روزہ کرکٹ میں مائیکل بیون کے 53 کے اوسط کو بھی پارکر گئے تھے۔ 'کے پی' نے 136 ایک روزہ مقابلوں میں 40 کے اوسط سے 4440 رنز بنائے ہیں، جس میں 25 نصف سنچریاں اور 9 سنچریاں شامل ہیں۔ ان کا 86 کا اسٹرائیک ریٹ بھی بہت عمدہ ہے جو ایک مڈل آرڈر بلے باز کے لیے بہترین مانا جاتا ہے۔

ٹی ٹوئنٹی میں ان کے دامن پر 2010ء میں ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں فاتحانہ کارکردگی بھی شامل ہے، جس کی بدولت انہوں نے انگلستان کو اب تک کا واحد بین الاقوامی اعزاز دلایا۔

لیکن کیون پیٹرسن سے غلطی کہاں ہوئی؟ 2012ء میں جنوبی افریقہ کے خلاف سیریز کے دوران آپس کے اختلافات اس وقت ابھرے جب انہوں نے اندرونی معاملات اپنے آبائی وطن جنوبی افریقہ کے کھلاڑیوں کے سامنے پیش کیے۔ موبائل پیغامات منظرعام پر آنے کے بعد وہ ہنگامہ اٹھا کہ جب اس کی دھول چھٹی تو پیٹرسن کا بین الاقوامی کیریئر تقریباً ختم ہوتا دکھائی دے رہا تھا۔ وہ عرصے تک انگلش ٹیم سے باہر رہے جب تک کہ اینڈریو اسٹراس نے ریٹائرمنٹ نہیں لی اور قیادت ایلسٹر کک کے ہاتھ میں نہیں آئی۔ بھارت کے دورے پر تاریخی کامیابی میں پیٹرسن کے کلیدی کردار نے 'سب اچھا' کردیا، یہاں تک کہ 2013-14ء کی ایشیز سیریز آ گئی، جہاں انگلستان کی بدترین ناکامی نے سب سے پہلے کیون پیٹرسن کو باہر کیا۔ پھر پیٹر مورس ایک مرتبہ پھر انگلینڈ کے ہیڈ کوچ بنے تو گویا ان کی واپسی کے امکانات بالکل ہی ختم ہوگئے۔ یہ وہی مورس ہیں، جن کے 2009ء میں پیٹرسن کے ساتھ اختلافات منظرعام پر آئے تھے اور پھر کیون کی کپتانی بھی چلی گئی تھی۔

اب کیون پیٹرسن کو انگلستان کی ٹیم سے باہر ہوئے ہوئے ڈیڑھ سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔ بہت سا پانی پلوں کے نیچے سے بہہ چکا ہے۔ کپتان بھی تبدیل ہوچکے، کوچ بھی، کیا اب بھی پیٹرسن کی واپسی کا کوئی امکان ہے؟ اس کا جواب صرف اور صرف وقت کے پاس ہے۔ دیکھتے ہیں 'کے پی' کب دوبارہ انٹرنیشنل کرکٹ میں دکھائی دیں گے۔