پاکستان کے لیے حتمی و فیصلہ کن ضرب کا دن

1 1,069

گال میں پہلے دن کا کھیل بارش کی نذر ہوجانے کے باوجود پاکستان ابتدائی تین دن تک سخت جدوجہد کرتا دکھائی دیا۔ دوسرے روز سری لنکا نے صرف 3 وکٹوں پر 178 رنز بنائے تو پاکستان کے گیندبازوں کے دانتوں تلے پسینہ آتا دکھائی دے رہا تھا۔ پھر بھی کچھ ہمت کرکے انہوں نے تیسرے دن سری لنکا کو 300 رنز سے آگے نہ جانے دیا۔ لیکن یہاں 'ازلی کمزوری' نے دھوکا دے دیا۔ تہرے ہندسے تک پہنچنے سے قبل ہی 'پروفیسر' محمد حفیظ، 'قابل اعتماد' اظہر علی بلکہ 'سدا بہار' یونس خان اور 'مرد بحران' مصباح الحق سمیت پانچ بلے باز مایوسی کے عالم میں میدان سے باہر آ چکے تھے۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ سری لنکا ایک دن کا کھیل ضائع ہونے کے باوجود گال میں پاکستان کے خلاف فتوحات کا سلسلہ باآسانی جاری رکھے گا۔

جب پاکستان 182 رنز کے خسارے میں تھا، اس وقت مستند بلے بازوں کی آخری جوڑی نے میدان سنبھالا، بلکہ میدان ہی مار لیا۔ اسد شفیق اور سرفراز احمد نے گال کی گرمی اور سری لنکا کی غالب آتی ہوئی گیندبازی کا منہ توڑ جواب دیا اور صرف ایک دن میں ہی کھیل کا نقشہ تبدیل کردیا ہے۔ اسد شفیق کی ساتویں ٹیسٹ سنچری اور سرفراز احمد کی 96 رنزکی دھواں دار اننگز کو ذوالفقار بابر کی دلچسپ نصف سنچری کا ساتھ حاصل رہا جس کی بدولت نہ صرف پاکستان نے سری لنکا کے 300 رنز کے مجموعے کو جا لیا بلکہ اس پر 117 رنز کی اچھی بھلی برتری بھی حاصل کرلی۔ یہ کمال تھا اسد شفیق کی 131 رنز کی اننگز کا جنہوں نے آخری پانچ بلے بازوں کے ساتھ مل کر اسکور میں 321 رنز کا اضافہ کیا۔

پرلطف اننگز سرفراز احمد کی تھی، وہ اپنی چوتھی ٹیسٹ سنچری کے حقدار تھے، لیکن بدقسمتی سے 96 رنز پر بولڈ ہوگئے۔ ان کی اننگز میں 13 چوکے شامل تھے۔ انہوں نے اسد کے ساتھ چھٹی وکٹ پر 139 رنز کی شراکت داری قائم کی اور ان کی روانگی کے بعد بھی پاکستان سری لنکا کے پہلی اننگز کے مجموعے سے 65رنز کے فاصلے پر تھا۔ یہاں وہاب ریاض، یاسر شاہ اور ذوالفقار بابر نے اسد شفیق کا بھرپور ساتھ دیا۔ گو کہ وہاب نے 14 اور یاسر نے 23 رنز ہی بنائے لیکن دونوں نے اسد کے ساتھ مل کر 67 رنز بنا کر سری لنکا کی برتری تو ختم ہی کردی۔ اس کے بعد ذوالفقار بابر کی 60 گیندوں پر دو چھکوں اور چھ چوکوں سے مزین 56 رنز کی تفریحی اننگز آئی جس نے نویں وکٹ پر 101 رنز کا اضافہ کرکے پاکستان کو ایک غالب مقام تک پہنچایا۔ اسد شفیق اپنی ساتویں ٹیسٹ سنچری مکمل کرنے کے بعد آخری وکٹ کی صورت میں آؤٹ ہوئے۔ انہوں نے 253 گیندیں کھیلیں اور صرف 5 چوکے لگا کر 131 رنز بنائے۔

چوتھے دن کے کھیل میں 21 اوورز کا مزید کھیل کھیلا گیا، جوسری لنکا کے لیے امتحان ثابت ہوا۔ دوسری اننگز کے نویں ہی اوور میں اِن فارم کوشال سلوا وہاب ریاض کے ہاتھوں آؤٹ ہوئے اور دن کے بالکل اختتامی لمحات میں کمار سنگاکارا کی وکٹ یاسر شاہ کے ہتھے چڑھ گئی۔صرف 63 رنز پر دو وکٹوں کے نقصان کے بعد اب سری لنکا پچھلے قدموں پر ہے۔ گو کہ صرف ایک دن کا کھیل باقی ہے، اور اب بھی مقابلے کے نتیجہ خیز ہونے کے امکانات خاصے کم ہیں لیکن پھر بھی سری لنکا کو بہت سنبھل کر کھیلنا ہوگا، ورنہ بازی پلٹتے دیر نہیں لگے گی۔

پاکستان کو شارجہ والے جذبے کے ساتھ کھیلنا ہوگا۔ اگر وہ ابتدائی دو سیشن جم کر گیندبازی کرے اور سری لنکا کی وکٹیں کھسکانے میں کامیاب ہوجائے تو عین ممکن ہے کہ اسے آخری سیشن میں بہت بڑے ہدف کی جانب پیشقدمی نہ کرنی پڑے۔ فی الحال تو نتیجے کے بارے میں کچھ کہنا مشکل ہے لیکن اگر سب کچھ پاکستان کے منصوبے کے مطابق ہوا تو یہ مقابلہ بہت دلچسپ ہوگا۔

پاکستان نے گزشتہ 6 سالوں میں گال کے مقام پر کوئی ٹیسٹ نہیں جیتا، بلکہ ہر مرتبہ شکست سے دوچار ہوا ہے۔ پاکستان نے پہلی اور آخری بار گال میں کامیابی 2000ء میں حاصل کی تھی اور اس کے بعد تین مقابلے 50 رنز، 209 رنز اور 7 وکٹوں کے فرق سے ہارے ہیں۔ کیا تاریخ کا حالیہ تسلسل ٹوٹ پائے گا؟ اس سوال کا جواب تو چند گھنٹوں میں مل جائے گا لیکن پاکستان کو حریف پر قابو پانے کے لیے کافی زور آزمائی کرنا ہوگی۔