[آج کا دن] پاکستان کرکٹ کا گمنام ہیرو، عاقب جاوید
عاقب جاوید، پاکستان کے مشہور زمانہ تیز باؤلرز کی طویل فہرست میں ایک اور نام جس کو ہمیشہ نظر انداز کیا گیا یا کم اہمیت دی گئی۔ عاقب نے قومی کرکٹ کو بہت کچھ دیا اور اس سے بہت کم حاصل کیا۔ 1990ء کی دہائی کے بدنام زمانہ میچ فکسنگ معاملے سے صاف و شفاف نکلے لیکن اس کے باوجود افسوس اس بات ہے کہ قوم ان کھلاڑیوں سے تو بہت جذباتی لگاؤ رکھتی ہے جو ملک سے مخلص نہیں تھے، بلکہ انہیں آج بھی مسیحا سمجھتی ہے کیونکہ ان کا کھیل میں بڑا نام تھا، لیکن عاقب جیسے ایماندار کھلاڑی عوام کی اس فہرست میں کبھی جگہ نہیں پاتے۔
عاقب جاوید سے میرا پہلا تعارف 1996ء میں ہوا جب میں نے کرکٹ کو دیکھنا اور سمجھنا شروع کیا۔ وہی سال جب وسیم اکرم پراسرار انداز میں زخمی ہوئے اور پھر سنگاپور میں سنگر کپ بھی نہیں کھیلا۔ یہاں میں نے ایک نوجوان گیندباز کو وقار یونس کے ساتھ پاکستان کے لیے باؤلنگ کا آغاز کرتے دیکھا۔ یہ وہ عمر تھی جس میں ہم صرف 'دونوں ڈبلیوز' کو ہی باؤلنگ کا معیار سمجھتے تھے اور کہتے تھے کہ اگر وہ ٹیم میں نہیں ہوں گے تو ہمارے جیتنے کے امکانات بہت کم رہ جائیں گے۔ لیکن جب بھی وہ نہ کھیلنے کا فیصلہ کرتے تو پاکستان کی نگاہیں عاقب جاوید پر ٹھیر جاتیں۔ وہ 1997ء میں بھارت کا دورۂ پاکستان ہو یا سہارا کپ، یا 1998ء میں بنگلہ دیش کا دورہ، عاقب جاوید کھیلنے کے لیے ہمیشہ موجود ہوتے۔ لیکن کیونکہ وہ دوسری ترجیح تھے، اس لیے ہمیں کبھی پسند نہیں آئے۔
اُن کے لیے داد و تحسین کے کلمات اور احترام کے جذبات اس وقت ابھرے جب وہ ریٹائر ہوگئے اور 1999ء میں میچ فکسنگ تحقیقات سے صاف و شفاف ہوکر نکلے۔ وہ ان کھلاڑیوں میں سے تھے جنہوں نے محض اس لیے مزید کرکٹ نہیں کھیلی کہ وہ پس منظر میں ہونے والی اِن حرکات سے خوش نہیں تھے۔ پھر عاقب نے کوچنگ کا آغاز کیا اور اس میں بھی پاکستان کو بہت کچھ دیا۔ وہ 2004ء میں انڈر19 عالمی کپ کے چیمپئن دستے کے ہیڈ کوچ اور 2009ء میں ورلڈ ٹی ٹوئنٹی جیتنے والی قومی ٹیم کے باؤلنگ کوچ تھے۔ نیشنل کرکٹ اکیڈمی ان کی نگرانی میں بہت موثر رہی اور بہترین نتائج پیش کیے، آج تو یہ عالم ہے کہ تمام تر سہولیات ہونے کے باوجود کھلاڑی مکمل طور پر فٹ نہیں رہ پاتے۔
آج شیخوپورہ کے اسی سپوت کی سالگرہ ہے، جو کسی بھی ایک روزہ مقابلے میں سات وکٹیں لینے والا پہلا اور کم عمر ترین گیندباز ہے۔ عاقب ذہنی طور پر ایک مضبوط کھلاڑی تھے جو میدانِ عمل میں محنت کرنے کا مطلب اور نئی گیند کو اشاروں پر نچانے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ ان کے کرکٹ کیریئر پر نظر دوڑائیں تو آپ کو کئی ایسے لمحات ملیں گے جن میں عاقب جاوید نے خود کو ثابت کیا ہے۔ 1992ء کا عالمی کپ محض ایک مثال ہے۔ حیرت ہوتی ہے کہ اتنی نمایاں اور اہم کارکردگی دکھانے کے باوجود عاقب کو درست اور جائز مقام کیوں نہیں دیا گیا، اگر میں اپنے الفاظ میں کہوں تو آخر انہیں شیمپو کا کوئی اشتہار کیوں نہیں ملا۔ اگر عاقب جاوید آج کھیل رہے ہوتے تو نہ صرف ایک مہنگے ٹی ٹوئنٹی کھلاڑی ہوتے بلکہ مردوں کے لیے شیمپو بنانے والے کسی ادارے کے برانڈ سفیر بھی قرار پاتے۔
نئی گیند سے اپنے فن کا مظاہرہ کرنے والے عاقب جاوید کے کرکٹ میدانوں میں چند یادگار لمحات:
عالمی کپ 1992ء میں آسٹریلیا کے خلاف گیندبازی، جب عاقب جاوید نے پاکستان کو نئی زندگی عطا کی
Aaqib Javed Great Bowling Vs Australia 1992 WC by shenshah_007
کسی بھی تیز گیندباز کی دھیمی ترین گیند
Aaqib magical slower ball to Mark Great Batch... by mrasifmahmood404
عاقب جاوید بمقابلہ سچن تنڈولکر، سہارا کپ 1997ء
Aqib Javed Unplayable Delivery 2 Sachin Tendulkar by bestofodi
کسی ایک روزہ میں 7 وکٹیں لینے والے نو عمر ترین گیندباز - عاقب جاوید
Aqib Javed 7/37 vs India Including a Hattrick... by PakistaniNewsUpdates
1992ء کا عالمی کپ فائنل، عاقب جاوید کی دو وکٹیں اور انگلش کپتان گراہم گوچ کا شاندار کیچ
Cricket World Cup Final Highlights 1992... by subhanm87
سعید انور کی ریکارڈ ساز اننگز کو 5 وکٹوں کے ذریعے خراج تحسین – پاکستان بمقابلہ بھارت، آزادی کپ 1997ء
Pakistan v India Independence Cup 1997 part 3 by Cricket_Guru
بدقسمتی سے اس مقابلے کی جھلکیوں میں پاکستان کی اننگز شامل نہیں، جو آپ کو یقین دلاتی کہ کس طرح عاقب جاوید سعید انور کی کوششوں کو ناکام ہونے سے بچانے کی جدوجہد کرتے دکھائی دیے۔ مقابلے میں انہوں نے پانچ وکٹیں حاصل کیں جس میں سچن تنڈولکر اور سارو گانگلی بھی شامل تھے۔ پھر ہر گزرتے لمحے کے ساتھ بھارت کو فتح کے قریب لے جانے والے راہول ڈریوڈ یعنی دیوارِ ہند کو بھی ڈھیر کیا۔
پاکستان بمقابلہ بھارت – ایشیا کپ 1995ء
عاقب نے وسیم اکرم کے ساتھ پاکستان کے باؤلنگ اٹیک کی قیادت کی اور 5 وکٹیں حاصل کرکے میچ کے بہترین کھلاڑی قرار پائے۔ (انہوں نے مرد میدان کا اعزاز کل 6 مرتبہ حاصل کیا ، جن میں سے 4 بار وہ بھارت کے خلاف مین آف دی میچ رہے)۔ بھارت 267 رنز کے تعاقب میں 169 رنز پر ڈھیر ہوا جس میں عاقب نے سچن، اظہر الدین اور ونود کامبلی کی قیمتی وکٹیں سمیٹیں۔
پاکستان بمقابلہ سری لنکا – آزادی کپ 1997ء
رمیز راجہ کو وسیم، وقار اور مشتاق کی عدم دستیابی میں کمزور ترین باؤلنگ کے ساتھ ٹیم کی بھارت میں قیادت کرنے کا ہدف ملا۔ اب رمیز کے پاس صرف ایک عاقب تھا اور نوجوان باؤلرز اظہر محمود، عبد الرزاق اور ثقلین مشتاق اور باقی بچ جانے والے اوورز کے لیے شاہد آفریدی، سلیم ملک اور بائیں ہاتھ سے باؤلنگ کرنے والے محمد حسین (عرفیت تھیلا)۔ پاکستان نے اس مقابلے میں سری لنکا کو کچل کر رکھ دیا اور پوائنٹس ٹیبل میں اول نمبر پر آیا۔ گو کہ آخر میں ٹورنامنٹ سری لنکا نے ہی جیتا لیکن اس مقابلے میں عاقب نے پانچ وکٹیں حاصل کیں جن میں حریف کے دو بہترین بلے باز سنتھ جے سوریا اور مارون اتاپتو بھی شامل تھے، جنہیں صفر کی ہزیمت اٹھانی پڑی۔ اس کارکردگی پر میچ کے بہترین کھلاڑی کا اعزاز عاقب جاوید کو دیا گیا۔
بھارت کا دورۂ پاکستان 1997ء – پہلا ایک روزہ
بھارت تین ایک روزہ مقابلے کھیلنے کے لیے کئی سالوں کے بعد پاکستان کا پہلا دورہ کررہا تھا۔ رمیز راجہ کے کرکٹ کو خیرباد کہنے کے بعد اب قیادت نئے کپتان سعید انور کے پاس تھی۔ یہ وقار یونس کی بین الاقوامی کرکٹ میں واپسی کے بعد پہلا مقابلہ بھی تھا۔ عاقب اور ثقلین نے بھارت کے بلے بازوں کو صرف 170 رنز تک محدود کردیا جس میں عاقب نے 4 وکٹیں حاصل کیں، جو سب کلین بولڈ تھے، اور اس کارکردگی کی بنیاد پر مین آف دی میچ بھی بنے۔