درجہ بندی کے نظام میں بہتری کی ضرورت
پاکستان کے خلاف ٹیسٹ سیریز میں بری طرح شکست نے جہاں بنگلہ دیش کی ایک روزہ فتوحات کا سخت دھچکا پہنچایا، وہیں اس کے لیے اگلے امتحانات بہت بڑے تھے۔ پہلے بھارت اور پھر جنوبی افریقہ کے خلاف ٹیسٹ مقابلے۔ یہاں اس کی کارکردگی تو کام نہ آئی لیکن بارش نے خوب ساتھ نبھایا اور نہ صرف بھارت کے خلاف واحد ٹیسٹ بلکہ عالمی نمبر ایک جنوبی افریقہ کے خلاف تو دونوں ہی مقابلے بارش کی نذر ہوگئے۔ اس طرح بنگلہ دیش بغیر کسی محنت کے دونوں سیریز برابر کھیل گیا اور عالمی درجہ بندی میں کئی قیمتی پوائنٹس لوٹ لیے۔ یہیں سے درجہ بندی کے اس نظام میں سب سے بڑی خامی سامنے آ گئی ہے۔ جس کی نشاندہی خود جنوبی افریقہ کے کپتان ہاشم آملہ نے کی ہے کہ جب ہم نے 10 میں سے 4 دن بھی کھیل نہیں کھیلا تو ہمیں 5 پوائنٹس سے محروم کیوں ہونا پڑا؟ ہاشم آملہ کا یہ شکوہ غلط نہیں ہے۔ گو کہ عالمی درجہ بندی کے نظام کو ممکنہ حدتک شفاف اور واضح بنانے کی کوشش کی گئی ہے لیکن جس طرح کسی بھی کام میں بہتری کی ضرورت ہمہ وقت موجود رہتی ہے، بالکل اسی طرح اِس نظام میں بھی کچھ خامیاں موجود ہیں، جنہیں بہتر بنانا چاہیے۔
اِس وقت جو طریقہ لاگو ہے اس کے مطابق ٹیموں کو ان کے حریف کے درجے کی بنیاد پر پوائنٹس ملتے ہیں یعنی اگر کوئی خود سے اعلیٰ درجے کی ٹیم سے جیتتا ہے تو اسے زیادہ پوائنٹس ملتے ہیں جبکہ بالائی نمبروں پر موجود ٹیم کو نچلی ٹیموں سے جیتنے پر کم پوائنٹس دیے جاتے ہیں۔ ہاں، اگر وہ اوپر کے نمبروں پر موجود ٹیم شکست کھا جائے تو کافی پوائنٹس سے محروم ہونا پڑتا ہے۔ یہی معاملہ جنوبی افریقہ کے ساتھ ہوا ہے جسے عالمی درجہ بندی میں نویں نمبر پر موجود بنگلہ دیش کے ہاتھوں سیریز جیتنے میں کامیابی نہیں ملی اس لیے پانچ پوائنٹس منہا کردیے گئے۔
درجہ بندی میں گزشتہ چار سال کی کارکردگی کو ملحوظ خاطر رکھا جاتا ہے جن میں ابتدائی دو سالوں کی فتوحات سے حاصل کردہ پوائنٹس نصف شمار ہوتے ہیں جبکہ آخری دو سالوں کی کارکردگی کے مکمل پوائنٹس شامل کیے جاتے ہیں۔ اس طرح ٹیموں کو مختلف درجے ملتے ہیں۔ جنوبی افریقہ گزشتہ چار سالوں کی شاندار کارکردگی کی وجہ سے سرفہرست ہے جبکہ آسٹریلیا دوسرے اور پاکستان تیسرے نمبر پر ہے۔
اب اس نظام میں خامیاں کیا ہیں؟ پہلی خامی جس کی طرح جنوبی افریقی قائد نے اشارہ کیا ہے وہ ہے بغیر کھیل کے نتیجے کو پوائنٹس میں بدلنا۔ یعنی ایک ٹیسٹ میچ میں اتنے دن کا کھیل ہی نہیں کھیلا گیا کہ نتیجہ نکلتا تو اسے برابر کیسے شمار کیا جائے؟ ویسے یہ کچھ 'ٹیڑھی کھیر' لگتی ہے اور اسے جنوبی افریقہ کی بدقسمتی ہی کہہ سکتے ہیں کہ وہ مسلسل دو مقابلوں کے بارش کی نذر ہونے کی وجہ سے قیمتی پوائنٹس گنوا بیٹھا ہے۔ اگر جنوبی افریقہ کے مطالبے پر کان دھرے جاتے ہیں تو پھر شاید دنوں کا تعین کرنا پڑے گا کہ اگر اتنے دن کا کھیل ممکن ہو تو اس مقابلے کے نتیجے کے مکمل پوائنٹس ٹیموں کو ملیں گے، ورنہ زیادہ تر کھیل بارش یا کسی اور وجہ سے نہ ہوپانے پر کسی ایک ٹیم کے ساتھ زیادتی نہیں ہوگی۔
البتہ اس سے بڑی خامی یہ ہے کہ درجہ بندی کا موجودہ نظام کے لیے مہمان اور میزبان دونوں برابر ہیں یعنی بنگلہ دیش چاہے آسٹریلیا کو اُس کے ملک میں ہرادے یا پھر ڈھاکہ میں شکست دے، دونوں صورتوں میں اسے پوائنٹس برابر ہی ملیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ 'گھر کے شیر' اپنے میدانوں پر جیت کر درجہ بندی پر قابض رہتے ہیں۔ بھارت گزشتہ کئی سالوں نے بیرون ملک کوئی سیریز نہیں جیتا لیکن اس کے باوجود ٹیسٹ درجہ بندی میں اِس وقت بھی پانچویں نمبر پر ہے بلکہ ایک روزہ میں تو دوسری پوزیشن پر قابض ہے جبکہ پاکستان جس نے گزشتہ پانچ سالوں نے اپنے میدانوں پر کوئی مقابلہ نہیں کھیلا اور اس دوران آسٹریلیا، انگلستان، جنوبی افریقہ، نیوزی لینڈ اور سری لنکا کے خلاف مختلف مقامات پر کامیابیاں حاصل کی ہیں، اس کے باوجود درجہ بندی میں وہ مقام حاصل نہیں کرسکا۔ بھارت کو بھارت اور جنوبی افریقہ کو اس کے ملک میں شکست دینے کے کارنامے بھی درجہ بندی میں اسے آگے نہ لے جا سکے۔
اس سلسلے میں آئی سی سی کو یہ تجویز دی جا سکتی ہے کہ جس طرح چار سال کی فتوحات کے ابتدائی دو سالوں کے پوائنٹس کو نصف شمار کیا جاتا ہے اس طرح گھریلو میدانوں پر فتوحات کو بھی میزبان کے لیے آدھا رکھا جا سکتا ہے جبکہ دوسرےملک کو اسی کے میدانوں پر ہرانے پر 100 فیصد پوائنٹس مل سکتے ہیں۔ بہرحال، یہ محض ایک تجویز ہے، فی الوقت کو اس کی تکنیکی تفصیلات اور جزئیات پر غور نہیں کیا گیا لیکن اگر ایسا ممکن ہو تو یہ اپنے میدانوں سے دور بہترین کھیل پیش کرنے والوں کے شایانِ شان انعام ہوگا۔ دیکھتے ہیں جنوبی افریقہ کی آہ و بکا پر آئی سی سی جاگتی ہے یا ایسے ہی ستّو پی کر سوتی رہے گی۔