بڑے بول کا انجام بُرا

1 1,117

کبھی کہا جاتا تھا ’’غرور کا سر نیچا‘‘ اور اب کہا جاتا ہے ’’بڑا بول تے ڈبہ گول‘‘۔ آسٹریلیا کے ساتھ بھی چوتھے ایشیز ٹیسٹ میں کچھ ایسا ہی ہوا ہے۔ وہ ٹرینٹ برج میں پہلی اننگز میں محض 18.3 اوورز میں صرف 60 رنز پر آل آؤٹ ہوگیا ہے۔ ابتداء میں ’’بڑے بول‘‘ کی بات اس لیے کی ہے کیونکہ تیسرے ٹیسٹ میں 8 وکٹوں سے شکست کھانے کے بعد آسٹریلوی قائد مائیکل کلارک کا ایک بیان سامنے آیا تھا کہ اگر انگلینڈ گرین ٹاپ وکٹیں بنائے، تو اگلے ٹیسٹ میں ہم اُسے بھی تیسرے دن شکست دینے کی پوری پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔لیکن چوتھا ٹیسٹ ابھی شروع ہی ہوا تھا کہ پلک جھپکتے میں آسٹریلیا سارے دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ مقابلہ تو اِس بار بھی تیسرے دن ہی ختم ہونے کے امکانات پیدا ہوگئے ہیں لیکن فاتح آسٹریلیا نہیں بلکہ انگلستان معلوم ہوتا ہے کیونکہ پہلے دن کا کھیل مکمل ہونے پر اس کا پلڑا بھاری ہے۔ پھر بھی یہ کرکٹ ہے اور جب تک کھیل کا نتیجہ سامنے نہ آ جائے کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہی کہلائے گا۔

ناٹنگھم میں پہلے دن کے ہیرو میدان سے مختصر فاصلے پر مقیم اسٹورٹ براڈ رہے جنہوں نے صرف 15 رنز دے کر 8 وکٹیں حاصل کیں اور ساتھ ہی انگلستان کی جانب سے 300 وکٹیں لینے والے پانچویں گیندباز بھی بنے۔

پہلے روز کا احوال کچھ یوں رہا کہ انگلستان کے کپتان ایلسٹر کک نے ٹاس جیت کر پہلے آسٹریلیا کو بلے بازی کی دعوت دی کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ابتدائی سیشن بہت اہمیت کا حامل ہے اور وکٹ اور حالات گیندبازوں کے لیے سازگار ہیں۔ کپتان کے اس فیصلے کو انگلستان کے گیندبازوں نے 100 نہیں بلکہ 200 فیصد درست ثابت کر دکھایا۔ کرس راجرز اور ڈیوڈ وارنر اننگز کا آغاز کرنے کے لیے میدان مین اترے اور تیسری ہی گیند پر راجرز اسٹورٹ براڈ کی 300 ویں ٹیسٹ وکٹ بن گئے۔ یہ 46 اننگز میں پہلا موقع تھا کہ راجرز صفر پر آؤٹ ہوئے ہوں۔ ابھی آسٹریلیا اس اہم وکٹ کے صدمے سے ہی نہیں نکلا تھا کہ اسی اوور کی آخری گیند لارڈز ٹیسٹ میں ڈبل سنچری بنانے والے اِن فارم بلے باز اسٹیون اسمتھ کو چلتا کرگئی۔

اس تباہ کن آغاز کے بعد تو ایک لمحہ بھی ایسا نہ تھا کہ آسٹریلیا مقابلے میں واپس آتے ہوئے نظر آیا ہو۔ پانچویں اوور کی پہلی گیند پر آدھی ٹیم پویلین واپس جاچکی تھی۔ یہ 2002ء کے بعد پہلا موقع تھا کہ کسی ٹیم کے 5 کھلاڑی ابتدائی 25 یا اُس سے بھی کم گیندوں میں آؤٹ ہوگئے ہوں۔

چھٹی وکٹ اُس کھلاڑی کی گری جس سے سب کو سب سے بہت اُمیدیں وابستہ تھی، لیکن وہ مشکل گھڑی میں وہ ایک بار پھر ناکام ہوگیا۔ آپ بالکل ٹھیک سمجھے کہ یہاں بات ہورہی ہے کپتان مائیکل کلارک جو 10رنز بناکر سے ایک خراب شاٹ کھیلتے ہوئے سلپ میں آؤٹ ہوئے۔اسٹیون فن نے گیری نیول کو کلین بولڈ کرکے آسٹریلیا کو ساتواں نقصان پہنچایا جس کے بعد براڈ نے آخری تین وکٹیں لے کر آسٹریلوی بساط کو مکمل طورپر لپیٹ دیا۔ آسٹریلیا کی جانب سے13 رنز کے ساتھ مچل جانسن ٹاپ اسکورر رہے بلکہ حقیقت میں سب سے زیادہ رنز فاضل تھے جن کی تعداد 14 تھی۔ 8 کھلاڑی دہرے ہندسے تک بھی نہ پہنچ سکے، صرف یہی نہیں بلکہ 3 کھلاڑی صفر کی ہزیمت سے بھی دوچار ہوئے۔

آسٹریلیا کے بلے بازوں کی ایسی درگت بنی تو عام خیال یہی تھا کہ اب ’’لنگوٹ‘‘ سنبھالنے کا وقت انگلش بلے بازوں کا ہے لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔ انگلستان کے بلے باز گھبرانے کے بجائے برتری کو زیادہ سے زیادہ آگے پہچانے کی کوششوں میں مصروف عمل رہے۔ اگرچہ انگلستان کی پہلے دو بلے باز ایڈم لیتھ اور این بیل صرف 34 رنز کے مجموعے تک آؤٹ ہوچکے تھے لیکن کپتان ایلسٹر کک اور جو روٹ نے ٹیم کو سہارا دیا۔ دونون نے تیسری وکٹ پر 62 رنز کی شراکت داری نبھائی جس کی بدولت انگلستان کو برتری ملنا شروع ہوئی۔ 96 رنز پر کک کی صورت میں انگلستان کا تیسرا کھلاڑی آؤٹ ہوا۔ ان کی جگہ جانی بیئرسٹو میدان میں اترے۔ یہ وہ وقت تھا جب آسٹریلیا نئے کھلاڑی کو دباؤ میں لے کر اپنی پوزیشن مضبوط بنا سکتا تھا مگر چوتھی وکٹ پر روٹ اور بیئرسٹو کی 173 رنز کی پارٹنرشپ نے آسٹریلیا کو مقابلے کی دوڑ سے تقریباً باہر ہی کردیا ہے۔ بیئرسٹو 74 رنز بنانے کے بعد جوش ہیزل ووڈ کا شکار بنے۔

پہلے دن کے اختتام تک انگلستان نے 4 وکٹوں کے نقصان پر 274 رنز بنا لیے تھے اور اُس کی مجموعی برتری 213 کے ہندسے کو چھو رہی ہے۔ روٹ 124 رنز پر ناٹ آؤٹ ہیں جبکہ نائٹ واچ مین کے طور پر آنے والے مارک ووڈ 2 رنز کے ساتھ کریز پر موجود ہیں۔