زمبابوے ایک اور اپ سیٹ کرنے میں ناکام

1 1,041

کامیابی کی راہوں پر پر شکست کا سامنا، اور پے در پے ناکامیوں کے بعد فتح کرکٹ کے کھیل کا حصہ ہے۔ جب تک حتمی نتیجہ نہ آئے کرکٹ جیسے کھیل میں کچھ کہنا ممکن نہیں ہوتا ہے کہ جیت کس کا مقدر بنے گی۔ آج زمبابوے کے ساتھ بھی کچھ یہی ہوا۔ ٹاس جیت کر پہلے گیندبازی سنبھالی تو یقیناً کپتان ایلٹن چگمبورا کے ذہن میں پہلے اور دوسرے مقابلے کے نتائج ہوں گے کہ جن میں پہلے زمبابوے نے 304 رنز کا ہدف حاصل کیا اور پھر نیوزی لینڈ نے 236 رنز کا ٹارگٹ باآسانی عبور کیا۔ ابتدائی دو مقابلوں میں ہدف کا تعاقب کرنے والی ٹیم کے جیتنے کے بعد تیسرے میں بھی امکان تھا کہ وہی ٹیم جیتے گی جو بعد میں بلے بازی سنبھالے گی۔ لیکن زمبابوے کے لیے یہ پتھر زیادہ بھاری ثابت ہوا اور نیوزی لینڈ نے آخری ایک روزہ میں 38رنز سے کامیابی حاصل کرکے سیریز دو-ایک سے جیت لی۔

زمبابوے کی دعوت پر نیوزی لینڈ کی جانب سے مارٹن گپٹل اور ٹام لیتھم بلے بازی کے لیے میدان میں اترے۔ یہی وہ دونوں کھلاڑی ہیں جنہوں نے دوسرے ایک روزہ میچ میں ناقابل شکست سنچریاں بنائی تھیں۔ اِس بار وہ یہ کارکردگی دہرانے میں ناکام رہے، لیتھم دسویں اوور کی آخری گیند پر جان نیومبو کا شکار ہوئے۔ جس کے بعد کپتان کین ولیم سن میدان میں آئے، جو آج کل اپنی بہترین فارم میں ہیں اور آخری 5 اننگز میں مسلسل 50 سے زائد رنز کی باریاں کھیل چکے ہیں۔ ولیم سن اور مارٹن گپٹل احتیاط کے ساتھ ٹیم کے مجموعے کو 100 تک لے آئے جہاں نیوزی لینڈ کو دوسرا نقصان اٹھانا پڑا۔ 42 رنز بنانے کے بعد گپٹل لیگ اسپنر گریم کریمر کے ہاتھوں آؤٹ ہوئے۔ نئے آنے والے بلے باز کولن منرو کپتان کی توقعات پر پورا نہیں اتر سکے اور 128 رنز پر نیوزی لینڈ کو تیسرا نقصان اٹھانا پڑا۔ اس جب 27 ویں اوور میں 128 رنز پر تین وکٹیں گرجائیں تو کچھ دباؤ تو محسوس ہوتا ہی ہے۔ اس کو دور کرنے کے لیے گرانٹ ایلیٹ میدان میں اترے اور کپتان کے ساتھ اچھی شراکت جمائی۔ مجموعہ 40 ویں اوور میں 198 تک پہنچا اور نیوزی لینڈ ایک بڑے اسکور کے لیے تیار دکھائی دیتا تھا جب کریمر نے ایک اور شکار کر ڈالا۔ ایلیٹ کی اننگز 36 رنز کے بعد کریمر کے ہاتھوں ہی تمام ہوئی۔

کین ولیم سن اپنی آٹھویں ایک روزہ سنچری کی جانب رواں تھے کہ 90 رنز پر نیومبو نے ان کو لانگ آن پر آؤٹ کروا دیا۔ کریگ اروائن نے ان کا بہت عمدہ کیچ لیا حالانکہ گیند واضح طور پر چھکے کے لیے جاتی دکھائی دے رہی تھی۔ یہ چھٹا موقع تھا کہ ولیم سن نروس نائنٹیز کا شکار ہوئے ہوں۔ کیریئر میں تین مرتبہ تو وہ محض 3 رنز کے فاصلے سے سنچری بنانے سے محروم رہے ہیں۔ 223 رنز تک پہنچتے پہنچتے وکٹ کیپر لیوک رونکی کی وکٹ بھی گرچکی تھی۔ اب نیوزی لینڈ 250 رنز تک رکتا دکھائی دے رہا تھا لیکن جیمز نیشام اور ناتھن میک کولم نے زمبابوے کے بڑھتے ہوئے قدموں کو روکا اور آخری 4 اوورز میں 50 رنز کا اضافہ کرکے نیوزی لینڈ کو 274 رنز تک پہنچا دیا۔ نیشام 37 جبکہ ناتھن میک کولم 25 رنز پر ناقابل شکست میدان سے لوٹے۔ زمبابوے کی جانب سے سب سے کامیاب گیندباز گریم کریمر رہے جنہوں نے 10 اوورز میں 44 رنز دیکر 3 کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا۔

پہلے ایک روزہ کے نتیجے کو دیکھیں تو یہ اُمید تھی کہ زمبابوے یہ ہدف شاید کامیابی سے حاصل کرلے۔ اور واقعی جس طرح دونوں اوپنرز یعنی ہملٹن ماساکازا اور چامو چی بھابھا نے آغاز فراہم کیا، اُس نے اِن خیالات کو تقویت بھی ملی۔ دونوں نے ابتدائی 22 اوورز تک نیوزی لینڈ کو ایک وکٹ کے لیے ترسائے رکھا یہاں تک کہ اسکور بورڈ پر 97 رنز جمع ہو چکے تھے۔ لیکن اس کے بعد وکٹیں گرنے کا ایسا سلسلہ شروع ہوا جو رکنے میں نہیں آ رہا تھا۔ چی بھابھا 32 رنز بنانے کے بعد مچل میک کلیناگھن کی پہلی وکٹ بنے اور اس کے بعد احساس ذمہ داری سے عاری زمبابوین بلے باز وکٹیں دیتے چلے گئے۔ کچھ ہی دیر میں ماساکازا کی 57 رنز کی اننگز کین ولیم سن کے ہاتھوں مکمل ہوئی۔ پھر کپتان ایلٹن چگمبورا ایش سودھی کو وکٹ دے گئے۔ کریگ اروائن اور شاں ولیمز نے زمبابوے کو بچانے کی آخری سنجیدہ کوشش کی اور مجموعے کو 159 رنز تک بھی پہنچایا لیکن اروائن کے رن آؤٹ نے امیدوں کو کافی حد تک ختم کردیا۔ یہیں سے مقابلہ مسلسل زمبابوے نے دور ہوتا چلا گیا۔ اگرچہ ولیمز کریز پر موجود تھے اور بہت عمدگی سے کھیل بھی رہے تھے لیکن کوئی کھلاڑی ان کا ساتھ دیتا نہیں دکھائی دیا یہاں تک کہ پوری ٹیم 235 رنز پر آؤٹ ہوگئی۔ زمبابوے کی آخری 7 وکٹیں 76 رنز کے اضافے سے گریں۔

میک کلیناگھن نے کل تین کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا جبکہ سودھی نے دو وکٹیں لیں۔ میک کولم، نیشام اور ولیم سن کو ایک، ایک وکٹ ملی۔

شاندار بلے بازی پر مقابلے اور سیریز کے بہترین کھلاڑی کا اعزاز نیوزی لینڈ کپتان کین ولیم سن کو ملا۔