کس کی جگہ مضبوط، کون دیکھے گا باہر کا راستہ

2 1,085

اگرچہ سری لنکا کے خلاف پاکستان نے ہر طرز کی کرکٹ میں کامیابی حاصل کی اور جس طرح ٹی ٹوئنٹی سیریز کا اختتام کیا وہ یقیناً قابلِ دید تھا۔ مگر ٹی ٹوئنٹی میں فتح بھی قومی کرکٹ ٹیم کے کوچ وقار یونس اور کپتان شاہد آفریدی کو تنقید ی حملوں سے نہ بچاسکی۔ اور اس کی وجہ تھی نائب کپتان سرفراز احمد کو ٹیم سے باہر رکھنے کا فیصلہ۔درحقیقت شاہد آفریدی اور ٹیم انتظامیہ کو تو سجدہ شکر بجا لانا چاہیے کہ ٹیم دونوں ٹی ٹوئنٹی مقابلے جیت گئی۔ کیونکہ جیت کے بعد اِس معاملے پر اتنی تنقید ہوئی ہے، اگر، خدانخواستہ، سیریز ہارجاتے تو کیا قیامت برپا ہوتی۔

جب شاہد آفریدی سے پوچھا گیا کہ کن بنیادوں پر وہ سرفراز احمد کو باہر بٹھانے پر مجبور ہوئے تو ان کا کہنا تھا کہ "وہ میری ٹیم کا نائب کپتان ہے، بھلا ایسے کیسے ہوسکتا ہے کہ ہم اُس کو ڈراپ کردیں؟ یہ منصوبہ بندی کا حصہ تھا اور مستقبل میں بھی ایسے تجربات کرتے رہیں گے۔" اب پاکستان کو زمبابوے کا دورہ کرنا ہے اور کپتان کے اس بیان کی روشنی میں یہ بات واضح ہے کہ وہاں بھی مزید تجربات ہوں گے۔ سوال یہ اُٹھتا ہے کہ کیا اس بار بھی کپتان، کوچ اور ٹیم انتظامیہ سرفراز احمد کو ہی تجربات کی بھینٹ چڑھائے گی؟

اِس امر سے کسی کو انکار نہیں کہ میدان میں اُنہی کھلاڑیوں کو اُتارنا چاہیے جن کی موجودگی سے فتح کے امکانات روشن ہوں۔ سابق کھلاڑیوں کی تنقید اور عوامی دباؤ ایک طرف، لیکن اہلیت کی بنیاد پر سرفراز کی ٹیم میں جگہ تو بنتی ہے، وہ اس وقت بہترین فارم میں ہیں۔ گال میں اور پھر پالی کیلے میں بالترتیب 96 اور 78 رنز بناکر انہوں نے پاکستان کی کامیابیوں میں اہم کردار ادا کیا۔ اِس کے بعد جب انتظامیہ نے سرفراز کو تیسرے ایک روزہ میں اوپر بھیجنے کا فیصلہ کیا تو اُس وقت بھی وکٹ کیپر بلے باز نے 77 رنز بنائے۔ یہ مقابلہ بھی پاکستان نے 135 رنز سے جیتا تھا۔ تو یہ بات تو واضح ہے کہ کارکردگی کو بنیاد بنا کر تو سرفراز احمد باہر نہیں بٹھایا جا سکتا۔ ہاں، اگر کوئی اور عوامل ہوں تو اُن کا علم نہیں۔بس یہی وجہ ہے کہ انتظامیہ پرسرفراز کو ٹی ٹوئنٹی ٹیم میں شامل کرنے کے لیے دباؤ ہے۔

دوسری جانب شعیب ملک بھی مسلسل اچھی کارکردگی دکھا کر اپنا مقام مضبوط کر چکے ہیں۔ جب سے وہ دوبارہ ٹیم کا حصہ بنے ہیں، اس وقت سے کامیابی میں اپنا بھرپور حصہ ڈال رہے ہیں۔ پھر بلے بازی کے ساتھ ساتھ اچھی فیلڈنگ اور گیندبازی کی اضافی صلاحیت بھی شعیب ملک کی پوزیشن کو مزید مضبوط کرتی ہے۔

اس کے بعد ہیں آل راؤنڈ انور علی۔ اگرچہ دوسرے ٹی ٹوئنٹی میں یادگار بلے بازی کے بعد انہیں اِس وقت کوئی خطرہ نہیں، پھر ابھی وہاب ریاض میں زخمی ہیں اور جنید خان بھی اچھی فارم میں نہیں۔ لیکن مستقبل میں اُن کی پوزیشن کمزور ہوسکتی تھی۔ لیکن ایسا ہونے سے قبل ہی انور علی نے گیند بازی کے ساتھ ساتھ بلے بازی میں بھی شاندار کارکردگی دکھاکر یہ پیغام دیا ہے کہ انہیں ٹیم سے نکالنے کا سوچا بھی نہ جائے۔ وہاب ریاض کی جلد واپسی اور ساتھ ہی محمد عامر پر پابندی کے خاتمے کے بعد تو انور علی کو سخت مقابلے کا سامنا ہوگا لیکن اگر کراچی سے تعلق رکھنے والے آل راؤنڈر بلے بازی اور باؤلنگ دونوں میں اپنی موجودگی کا احساس دلاتے رہے تو پھر کوئی بھی آجائے، انور کہیں نہیں جائیں گے۔

کچھ یہی معاملہ عماد وسیم کا ہے۔ دوسرے ٹی ٹوئنٹی میں ذمہ دارانہ اننگز کھیلنے اور فاتحانہ چھکا لگانے والے عماد جیسے کھلاڑی کی پاکستان کو سخت ضرورت ہے۔ محمد حفیظ کی گیندبازی پر پابندی عائد ہونے کے بعد ایک ایسا کھلاڑی جو اسپن باؤلنگ کرسکے اور بلے بازی میں بھی ذمہ داری نبھا سکے، اولین ترجیح ہے۔ اگرچہ عماد کو ابھی اتنے مواقع نہیں ملے کہ ان کے بارے میں کوئی حتمی رائے قائم ہوسکے لیکن جتنا بھی موقع دیا ملا ہے اُس میں اِس نوجوان کھلاڑی نے اپنے انتخاب کو کسی حد تک ٹھیک ہی ثابت کیا ہے۔

پاکستان کرکٹ کا مستقبل مندرجہ بالا کھلاڑیوں کے ہاتھوں میں ہے لیکن حال کو دیکھیں تو چند کھلاڑی ایسے ہیں جن کا انتخاب ٹیم انتظامیہ کے لیے مشکل فیصلہ ثابت ہوگا۔ ان میں پہلا نام ہے محمد حفیظ کا۔ یہ نام پڑھ کر حیرت زدہ تو نہیں ہوگئے؟ اگر ہوئے ہیں تو ہم آپ کو وجہ بھی بتاتے ہیں۔ اصل میں حفیظ بطور آل راؤنڈر پاکستان کا اولین انتخاب تھے۔ ایک روزہ ہو یا ٹی ٹوئنٹی، حفیظ نے اپنی بہترین بلے بازی اور ساتھ ہی نپی تلی باؤلنگ سے خود کو اس مقام کا اہل ثآبت کیا ہے۔ لیکن آئی سی سی کی جانب سے ایک سال کی پابندی نے حفیظ کے انتخاب کو مشکل بنا دیا ہے۔ گزشتہ 13 ٹی ٹوئنٹی اننگز میں نصف سنچری تک بنانے میں ناکام رہے والے حفیظ اس وقت بدترین فارم سے گزر رہے ہیں۔ وہ آخری 10 اننگز میں ایک مرتبہ 20 کا ہندسہ تک عبور نہیں کرسکے۔ اس صورت میں سلیکٹرز اور ٹیم انتظامیہ حفیظ کو آرام کروائے گی اور ان کے لیے یہ فیصلہ ہرگز مشکل نہیں ہوگا۔

اس سلسلے میں دوسرا نام ہے عمر اکمل کا۔ عمر اکمل میں صلاحیت ہے یا نہیں، اور اگر ہے تو کتنی اور قومی ٹیم کے لیے وہ کیا کچھ کرسکتے ہیں، اس بارے میں ابھی بات نہیں کریں گے بلکہ صرف یہ کہیں گے کہ عمر اس وقت ٹیم کے لیے کتنے کارآمد ثابت ہوسکتے ہیں۔ ان کے ساتھ بھی معاملہ قریب قریب محمد حفیظ جیسا ہی ہے۔ جب تک وہ وکٹ کیپنگ بھی کررہے تھے تو ٹیم کو ان کی زیادہ ضرورت تھی لیکن سرفراز احمد اور محمد رضوان کی موجودگی میں اب وکٹ کیپنگ کے دستانے تو ان کے ہاتھوں سے اتر گئے اور تمام نظریں ان کی بلے بازی پر مرکوز ہوگئی ہیں۔ اگر وہ رنز بنا کر ٹیم کی مدد کریں گے تو ظاہر ہے ٹی ٹوئنٹی دستے کا حصہ رہیں گے لیکن ناکام ہونے کی صورت میں آرام ملنے کا خدشہ ہے۔ سری لنکا کے خلاف پہلے ٹی ٹوئنٹی میں گرچہ انہوں نے رنز بنائے لیکن دوسرے مقابلے میں ان کی ناکامی پاکستان کو مقابلے میں شکست کے دہانے پر لے آئی تھی۔ اس لیے اگر عمر اکمل ٹیم میں مستقل جگہ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو انہیں مستقل کارکردگی بھی دکھانی ہوگی۔

محمد حفیظ اور عمر اکمل کو باہر بٹھانا بہرحال ایک مشکل فیصلہ ہوگا لیکن شاید سلیکٹرز کو مختار احمد کو باہر بٹھانے میں کوئی خاص دشواری نہ ہو۔ اوپننگ ایسی پوزیشن ہے کہ کامیاب ہونے کی صورت میں ٹیم کی فتح کے امکانات کسی حد تک بڑھ جاتے ہیں لیکن جب پہلی ہی وکٹ اچھی شراکت داری نہ قائم کرسکے تو نیچے آنے والے بلے بازوں کے لیے مشکلات کھڑی ہوجاتی ہیں۔ اس لیے مختار احمد پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ موقع کو غنیمت جانیں اور کچھ کر دکھائیں۔ اگر آپ کا نام یاد نہیں رکھا گیا تو پھر آپ کو ملنے والا موقع کسی اور کے ہاتھ لگ جائے گا۔

یہ کہنا ہر گز غلط نہ ہوگا کہ ورلڈ ٹی ٹوئنٹی 2016ء سے قبل ہونے والے تجربات کئی کھلاڑیوں کو زندگی کے بہترین مواقع بھی عطا کررہے ہیں اور چند کھلاڑیوں کے کیریئر کے تابوت میں آخری کیلیں بھی ٹھونک رہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس اہم ٹورنامنٹ سے پہلے پہلے ایک ایسا تال میل قائم کرلیا جائے جس کی بدولت پاکستان چھ سال پہلے کھویا ہوا اعزاز حاصل کرلے۔