”گھر کے شیر، باہر ڈھیر“، بھارت عملی مثال

1 1,043

طویل طرز کی کرکٹ میں بھارت کی کارکردگی پر جب "گھر کے شیر" کی چھاپ لگائی جاتی ہے تو ہندوستانی حلقوں میں اسے سنجیدہ نہیں لیا جاتا۔ بلاشبہ بھارت گزشتہ پانچ سال میں ایک روزہ اور ٹی ٹوئنٹی طرز کی بہترین ٹیموں میں شمار رہا ہے بلکہ اس دوران ایک مرتبہ عالمی کپ اور چیمپئنز ٹرافی جیتنے کے علاوہ ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے فائنل تک بھی پہنچا لیکن اس عرصے میں ٹیسٹ میں بھارت کی کارکردگی بہت مایوس کن رہی ہے خاص طور پر جب وہ بیرون ملک کھیل رہا ہو۔ تازہ ترین 'واردات' ہی دیکھ لیں کہ گال میں سری لنکا پر تین دن تک غالب رہنے کے بعد محض ایک دن میں شکست سے دوچار ہوا اور محض 176 رنز کا ہدف بھی حاصل نہ کرسکا۔ لیکن اس سے پہلے کہ ہم آپ کو گزشتہ پانچ سال میں بھارت کے بیرون ملک حشر کے بارے میں بتائیں، بہتر یہی ہوگا کہ موازنے کے لیے پہلے گھریلو میدانوں پر پیش کردہ کارکردگی کا مختصر جائزہ لے لیں، جو شاندار بلکہ حسرت کے قابل ہے۔

بھارت نے گزشتہ پانچ سالوں میں اپنے ملک میں 20 ٹیسٹ مقابلے کھیلے ہیں۔ عالمی کپ 2011ء سے قبل آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے خلاف شاندار کامیابیوں کو ملا کر 20 میں سے 14 مقابلے بھارت نے جیتے اور صرف دو میں شکست کھائی ہے۔ 2012ء میں انگلستان کے خلاف ہونے والی ان شکستوں کی وجہ سے اسے سیریز بھی گنوانی پڑی لیکن اس کے بعد سے اب تک، تقریباً 3 سال کا عرصہ گزر چکا ہے، دنیا کی کوئی ٹیم بھارت کو اس کے ملک میں شکست نہیں دے سکی۔ یہاں تک کہ اس عرصے میں آسٹریلیا بھی پنجہ آزمائی کرچکا ہے لیکن چار-صفر کی ہزیمت سے دوچار ہوا۔

گزشتہ پانچ سالوں میں بھارت کی اپنے میدانوں پر ٹیسٹ کارکردگی

مقابلے فتوحات شکستیں برابر ڈرا
بھارت 20 14 2 0 4

لیکن اس کے بالکل برعکس جیسے ہی بھارت کے کھلاڑیوں نے ملک سے باہر قدم نکالا، لڑکھڑانے لگے، ڈوب جانے لگے۔ اسی عرصے میں، یعنی گزشتہ پانچ سالوں میں، بھارت نے دوسرے ملکوں میں 29 ٹیسٹ کھیلے ہیں اور صرف تین میں کامیابی حاصل کی ہے جبکہ 17 مقابلوں میں اسے شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ یہ اعدادوشمار دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جس طرح بیشتر ممالک نے مختلف طرز کی کرکٹ کے لیے مختلف دستے بنا رکھے ہیں، شاید بھارت نے بھی میزبان و مہمان کی حیثیت سے دو الگ ٹیموں کا انتخاب کر رکھا ہے۔ درحقیقت ایسا ہے تو نہیں لیکن اتنے مختلف نتائج؟ اچھے بھلے پرستار بھی سر پکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں۔

بھارت نے آخری بار گزشتہ سال جولائی میں انگلستان کے خلاف لارڈز میں کامیابی حاصل کی تھی لیکن اس کے بعد انگلستان و آسٹریلیا کے خلاف مسلسل پانچ ٹیسٹ مقابلے ہارے ہیں جبکہ گزشتہ تین ٹیسٹ نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئے۔ پانچ سالوں میں بھارت کو بیرون ملک صرف ایک سیریز جیتنے کا شرف حاصل ہوا ہے جب اس نے 2011ء میں ویسٹ انڈیز کے دورے پر ایک-صفر سے کامیابی حاصل کی تھی۔ اس کے بعد سے اب تک بھارت کی دوسرے ممالک میں ٹیسٹ کارکردگی ایسی ہے کہ ماتم کرنے کو دل چاہتا ہے۔

بھارت انگلستان اور آسٹریلیا کے دو دوروں میں تو کامیابی حاصل نہ کرسکا اور نہ ہی جنوبی افریقہ میں اسے کوئی سیریز جیتنے کو ملی لیکن یہ تو بڑے نام ہیں بھارت بنگلہ دیش کے خلاف تک سیریز نہیں جیت سکا۔ ویسے اس میں بھارت کی کارکردگی کا دخل کم اور بدقسمتی کا زیادہ ہے کیونکہ بنگلہ دیش کے گزشتہ دورے پر واحد ٹیسٹ بارش کی نذر ہوگیا تھا۔

گزشتہ پانچ سالوں میں بھارت کی بیرون ملک ٹیسٹ کارکردگی

مقابلے فتوحات شکستیں برابر ڈرا
بھارت 29 3 17 0 9

سری لنکا کے دورے پر پہلے ہی مرحلے پر ڈھیر ہوجانے کے بعد ابھی سنبھلنے کا موقع ہے۔ 20 اگست سے کولمبو میں دوسرا ٹیسٹ کھیلا جائے گا جہاں بھارت کے جارح مزاج قائد ویراٹ کوہلی حالیہ شکست کے ازالے کی کوشش کریں گے۔ لیکن سالہا سال کی کارکردگی ثابت کرتی ہے کہ بھارت طویل طرز کی کرکٹ کو زیادہ سنجیدہ نہیں لے رہا۔ گال میں 192 رنز کی برتری حاصل کرنے کے باوجود شکست اور 176 رنز کے معمولی ہدف کے تعاقب میں بری طرح ناکامی یہ ظاہر کرنے کے لیے کافی ہے۔

میزبان کی حیثیت سے کامیابیوں نے بھارت کو ابھی تک عالمی درجہ بندی میں پانچویں نمبر پر رکھا ہوا ہے، لیکن اگر شکستوں کا یہ سلسلہ طول پکڑتا گیا تو بھارت اسی درجے پر آجائے گا، جس پر ایک روزہ میں اِس وقت پاکستان ہے۔