قومی ٹی ٹوئنٹی کپ کے پہلے دن کا احوال

0 1,044

بالآخر جس لمحے کا شائقین کرکٹ کو انتظار تھا وہ اب آچکا ہے کہ قومی ٹی ٹوئنٹی کپ کا باقاعدہ آغاز آج ہوچکا۔ اگرچہ کوالیفائنگ راونڈ کا سلسلہ تو یکم ستمبر سے جاری ہے مگر عوام کی جانب سے اُس راونڈ کے لیے کچھ خاص دلچسپی دیکھنے میں نہیں آئی تھی کیونکہ اُن کے قومی ہیروز کو تو مین راونڈ میں جلوہ گر ہونا تھا۔

آج مین راونڈ میں کل پانچ میچ کھیلے گئے اور پہلا میچ 6 بار کی فاتح سیالکوٹ اسٹالینز اور کراچی وائٹس کے درمیان کھیلا گیا جو سیالکوٹ نے سنسنی خیز مقابلے کے بعد 7 رنز سے جیتا اور یہ باآسانی کہا جاسکتا ہے کہ شائقین کرکٹ کو اِس سے اچھا آغاز دیکھنے کو نہیں مل سکتا تھا۔

اگر اِس میچ کے بارے میں یہ کہا جائے کہ درحقیقت یہ سیالکوٹ اور کراچی کے مابین میچ نہیں بلکہ سیالکوٹ کے اوپنرز اور کراچی کے درمیان میچ تھا تو ہرگز غلط نہیں ہوا۔ سیالکوٹ نے ٹاس جیت کر پہلے بلے بازی کا فیصلہ کیا۔ اننگ کی ابتداء میں ہی یہ واضح ہوگیا تھا کہ سیالکوٹ کے کپتان شعیب ملک نے ٹھیک فیصلہ کیا ہے۔ کیونکہ ابتدائی بلے بازوں یعنی مختار احمد اور نعمان انور نے 12 اوور تک ٹیم کا اسکور 125 تک پہنچادیا تھا اور تیرھوے اوور کی پہلی گیند پر نعمان انور طارق ہارون کی گیند کا شکار ہوگئے۔ بس پہلی وکٹ گرنے کی دیر تھی اور پھر وکٹیں گرنے کا جو سلسلہ شروع ہوا وہ اننگ کے اختتام پر ہی رکا۔ سیالکوٹ نے 20 اوورز میں پانچ وکٹوں کے نقصان پر 198 رنز بنائے تھے جس میں خاص بات مختار احمد کے 123 رنز تھے جو پاکستان کی ڈومیسٹک کرکٹ کی تاریخ کا سب سے بڑا اسکور ہے۔ اگر مختار احمد اور نعمان انور کے علاوہ بقیہ کھلاڑیوں کی بات کی جائے تو کوئی کھلاڑی دوہرے ہندسے تک بھی نہیں پہنچ پایا۔

اس قدر بڑے ہدف کے بعد گمان یہی تھا کہ میچ سیالکوٹ باآسانی جیت جائے گا اور پھر اِس گمان کو تقویت دی کراچی کے آغاز نے۔ 6 اوور میں 45 رنز پر 3 کھلاڑی جب پویلین لوٹے تو اوپنر احسن علی اور کپتان سیف اللہ بنگش نے ذمہ دارانہ بلے بازی کا مظاہرہ کیا اور ٹیم کا اسکور پندرہوے اوور تک 127 تک لے گئے مگر پھر کپتان بلاول بھٹی کی گیند کا شکار ہوگئے۔ احسن علی کا ساتھ دینے وکٹ پر آئے شہریار غنی مگر جب ٹیم کا اسکور جب 145 تک پہنچا تو شہریار غنی پویلین چلتے بنے مگر کراچی کو اصل نقصان تو احسن علی کی صورت ہوا جو 76 رنز بنانے کے بعد فوراً ہی آوٹ ہوگئے۔ یہ وہ موقع تھا جب ایسا لگ رہا تھا شاید کراچی مزید مقابلہ نہ کرسکے مگر طارق ہارون کی جانب سے 17 گیندوں پر 32 رنز کی جارح مزاج اننگ نے نہ صرف میچ کو دلچسپ بنایا بلکہ مخالف ٹیموں کو کراچی وائٹس سے ہوشیار اور خبردار بھی کردیا۔

شاندار بلے بازی کی وجہ سے مختار احمد کو میچ کے بہترین کھلاڑی کا ایوارڈ دیا گیا۔

دوسرا میچ ملتان ریجن اور حیدرآباد ریجن کے درمیان اسلام آباد کے مرغزار کرکٹ گراونڈ میں کھیلا گیا۔ اِس میچ میں حیدرآباد نے ٹاس جیت کر فیلڈنگ کا فیصلہ کیا۔ جب میچ کا آغاز ہوا تو حیدرآباد کا فیصلہ ٹھیک ثابت ہورہا تھا کیونکہ ملتان کے محض 32 رنز پر 3 کھلاڑی پویلین لوٹ چکے تھے اور معلوم ایسا ہورہا تھا کہ اگر سلسلہ ایسا ہی جاری رہا تو شاید ملتان 150 بھی مکمل نہ کرسکے مگر یہی وہ وقت تھا جب ملتان کے بلے بازوں نے ہوش کے ناخن لیے اور صہیب مقصود اور نوید یاسین کی جارح مزاج شاندار شراکت داری نے ملتان کو مستحکم پوزیشن پر لاکھڑا کیا۔ دونوں بلے بازوں نے چوتھی وکٹ کے لیے 109 رنز کی شراکت داری قائم کی۔ اِس طرح ملتان نے 20 اوورز میں 4 وکٹوں کے نقصان پر 186 رنز بنائے تھے۔

اتنے بڑے اسکور کو دیکھنے کے بعد لگ رہا تھا کہ شائقین کو ایک اور دلچسپ مقابلہ دیکھنے کو ملے گا مگر معاملہ کچھ اُلٹ ہی ہوگیا کیونکہ حیدرآباد نے یہ ہدف محض 2 وکٹوں کے نقصان پر ہی پورا کرلیا جبکہ ابھی اننگ میں 6 گیندیں باقی تھیں۔ حیدرآباد کی جانب سے سب سے کامیاب بلے باز شرجیل خان رہے جنہوں نے 3 چھکوں اور 13 چوکوں کی مدد سے 91 رنز کی اننگ کھیلی، اگرچہ اُن کے پاس پورا موقع تھا کہ وہ بھی اپنی سینچری مکمل کرلیتے مگر وہ ایسا کرنے میں ناکام رہے۔ شرجیل کا ساتھ دیا فیصل اطہر نے جنہوں نے 6 چوکوں کی مدد سے 41 گیندوں پر 56 کی باری کھیلی۔

شاندار بلے بازی کی وجہ سے شرجیل خان کو میچ کا بہترین کھلاڑی کا ایوارڈ دیا گیا۔

دن کا آخری میچ کھیلا گیا اسلام آباد ریجن اور لاہور ریجن وائٹس کے درمیان۔ اگر یہ کہا جائے کہ لاہور وائٹس ٹورنامنٹ کی سب سے مضبوط ٹیم ہے تو بے جا نہ ہوگا، جسے ایک روزہ ٹیم کے کپتان اظہر علی، محمد حفیظ، احمد شہزاد، عمر اکمل، محمد عرفان، وہاب ریاض اور اعزاز چیمہ کی خدمات حاصل ہے۔ اِس ٹیم کو دیکھنے کے بعد امکانات تو یہی تھے کہ لاہور میچ کو باآسانی جیت جائے گی، اگرچہ میچ تو لاہور ہی جیتی مگر ’خون کا دریا پار کرکے‘۔

اسلام آباد نے ٹاس جیت کر بلے بازی کا فیصلہ کیا اور بھرپور جدوجہد کے ذریعے 3 وکٹوں کے نقصان پر 168 رنز بنانے میں کامیاب رہی۔ اسلام آباد کی جانب سے شان مسعود نے 32، شاہد یوسف نے 30 اور بابر اعظم اور عماد وسیم نے ناقابل شکست بالترتیب 59 اور 38 رنز بنائے۔ اگر ہم دن کے باقی میچوں پر نظر دوڑائیں تو یہ ہدف کچھ کم معلوم ہورہا تھا اور خاص کر جب سامنے مضبوط بیٹنگ لائن ہو۔

لاہور کی مضبوط بیٹنگ لائن کی جانب سے شاندار آغاز کیا گیا اور محض 5 اوورز میں 59 رنز بنالیے تھے، یہ وہ وقت تھا جب اسلام آباد کے گیند باز خطرے کی گھنٹی یعنی احمد شہزاد کو آؤٹ کرنے میں کامیاب ہوئے جنہوں نے محض 23 گیندوں میں 48 رنز کی برق رفتار اننگز کھیلی۔ جس کے بعد محمد حفیظ بیٹنگ کے لیے آئے۔ مگر دو اوور بعد ہی کپتان اظہر علی بھی پویلین کی جانب چلتے بنے۔ اس وقت ٹیم کا اسکور 66 تھا۔ اب کی بار بیٹنگ کے لیے عمر اکمل میدان میں آئے۔ حفیظ اور اکمل نے ٹیم کو کچھ سنبھالا دیا اور اسکور کو 14ویں اوور میں 116 تک لے گئے۔ مگر اِسی موقع پر حفیظ بھی آوٹ ہوگئے۔ ابھی لاہور اِسی دھچکے سے باہر نکلنے کی کوشش میں تھا کہ محض 5 رنز بعد عمل اکمل بھی آوٹ ہوگئے۔ چار وکٹیں گرنے کے بعد نستباً جوان کھلاڑی سعد نسیم اور حسین طلعت اپنی ٹیم کو فتح سے ہمکنار کرنے کے لیے وکٹ پر موجود تھے اور دونوں نے مل کر اتھارویں اوور تک اسکور کر 150 تک پہنچا دیا تھا۔ لیکن جب فتح کی جانب رفتار کو بڑھانے کا وقت تھا عین اُسی وقت لاہور کو ایک اور نقصان پہنچا اور وہاب ریاض ٹیم کے مجموعی اسکور 157 پر آوٹ ہوگئے۔ معاملہ یہ رکا نہیں بلکہ آخری اوور کی دوسری بال پر 160 پر ساتویں وکٹ بھی گرگئی۔ لیکن چونکہ ہدف بہت بڑا نہیں تھا جس کیوجہ سے لاہور کو 3 وکٹوں سے فتح نصیب ہوگئی۔

لاہور کی جانب سے سب سے زیادہ اسکور احمد شہزاد نے کیا ہے اور اِسی کارکردگی کی بنیاد پر اُنہیں میچ کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا ہے۔