تین دن میں 813 رنز اور صرف 11 وکٹیں، ابوظہبی کی پچ پر کڑی تنقید

0 1,060

ابوظہبی کی وکٹ گیندبازوں کے لیے ڈراؤنا خواب ثابت ہو رہی ہے، یہاں تک کہ میزبان پاکستان کے اسپن باؤلنگ کوچ مشتاق احمد بھی پھٹ پڑے ہیں۔ سست روی سے جاری ٹیسٹ میچ کا سبب ہی وکٹ کو قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ ایسی پچیں ٹیسٹ کرکٹ کے مستقبل کے لیے اچھا شگون نہیں ہیں۔

جب میزبان ہی وکٹ کی برائی کرے تو اندازہ لگا لیجیے کہ وکٹ کا حال کیا ہوگا۔ ابھی تو چوتھے دن کا کھیل جاری ہے، تین دنوں میں 261 اوورز میں گیندبازوں نے صرف 11 وکٹیں لی ہیں۔ ایسی وکٹ جو ہمیشہ اسپن باؤلرز کے لیے مددگار رہتی تھی، پھر اسپنرز کا یہ حال ہے کہ وہ ابتدائی تین دنوں میں 774 گیندیں پھینک چکے ہیں لیکن انہیں ایک وکٹ بھی نہیں ملی، جو ایک ریکارڈ ہے۔ کرکٹ ویسے تو گیند اور بلّے کا مقابلہ ہے لیکن ابھی تو بازی مکمل طور پر بلے بازوں کے ہاتھ میں ہے اور لگتا ہے کہ مقابلہ بری طرح ڈرا ہوجائے گا۔

185 ٹیسٹ وکٹیں لینے والے مشتاق احمد جانتے ہیں کہ اسپن باؤلر کو بھی وکٹ میں سے کچھ درکار ہوتا ہے تاکہ وہ مختلف قسم کی گیندیں پھینک سکے اور پچ پر ہونے والی ٹوٹ پھوٹ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ٹرن حاصل کرسکے۔ پاکستان کو توقع تھی کہ تیسرے روز تک پچ کی بالائی سطح بکھرنا شروع ہوجائے گی جیسا کہ ٹھیک ایک سال قبل آسٹریلیا کے خلاف ہوا تھا جب مہمان ٹیم بری طرح ڈھیر ہوکر شکست سے دوچار ہوئی تھی لیکن یہاں تو چوتھے روز بھی ایسے کوئی آثار نہیں دکھائی دیتے۔

مشتاق احمد کہتے ہیں کہ ایمانداری سے کہوں تو ایسی وکٹیں کھیل کے لیے نقصان دہ ہیں۔ یہاں کھیلے گئے پچھلے تینوں میچز کی وکٹیں بہت اچھی تھیں۔ ہوسکتا ہے اس بار موسم بھی مختلف ہونا وجہ بنا ہو کیونکہ کچھ زیادہ ہی گرمی ہے اس لیے انتظامیہ نے گھاس بچانے کی کوشش کی ہو۔ یہی گھاس اب چھوٹی موٹی دراڑوں کو کھلنے نہیں دے رہی۔

اسلامی سال کے آغاز کے ساتھ اس بار متحدہ عرب امارات میں ہفتہ وار تعطیلات میں اضافہ ہوا ہے، اس لیے ہمیں جمعرات کو بھی خاصے تماشائی نظر آئے ۔ لیکن ان کے ساتھ جو ہوا، اچھا نہیں ہوا۔ انہوں نے دن بھر میں 234 رنز بنتے صرف تین وکٹیں گرتے ہوئے دیکھیں۔ اگر یاسر شاہ کھیلتے تو شاید شاید کہ صورتحال کچھ بہتر ہوتی لیکن انگلستان کے معین علی اور عادل رشید تو بے دانت کے شیر ثابت ہوئے اور ذوالفقار بابر بھی ابھی تک کوئی کامیابی حاصل نہیں کرسکے۔

مشتاق احمد نے مزید کہا کہ یہ بہت ہی سست وکٹ ہے، اسپنر کسی حد تک تو بلے بازوں کو دھوکا دینے میں کامیاب رہے لیکن پھر بھی بلے باز بچ گئے کیونکہ وکٹ کے اندر سرے سے دم ہی نہیں۔ جب کک کی طرح کوئی بیٹسمین جم جائے تو پھر انہیں پچ کی مدد سے شکست دینا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔

فی الحال یہ مقابلہ بری طرح ڈرا کی طرف جا رہا ہے اور ایسے مقابلے متحدہ عرب امارات میں ٹیسٹ کرکٹ کی مقبولیت کو مزید گھٹا دیں گے۔