کم روشنی نے پاکستان کو رسوائی سے بچالیا

1 1,027

آخر برداشت کی بھی کوئی حد ہوتی ہے، آخر کب تک کوئی تنقید کو برداشت کرےَ؟ مسلسل چار دن تنقید کے بعد ابوظہبی کی وکٹ کے بھی کچھ یہی تاثرات ہونگے اور تبھی اُس نے سب کے منہ بند کرنے کا فیصلہ کیا اور میچ کی ایسی کایا پلٹی کہ بے نتیجہ ہوتا میچ یکدم سے انگلستان کی یقینی فتح میں تبدیل ہوا مگر عین وقت میں کم روشنی کے سبب یقینی فتح نے ڈرا کی صورت اختیار کرلی۔

جب پانچویں دن کا آغاز ہوا تو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ دن کا اختتام اِس قدر سنسنی خیز ہوگا۔

جب انگلستان نے اپنی بلے بازی کا آغاز کیا تو اُس کے 569 پر 8 کھلاڑی آوٹ تھے جبکہ وہ 46 رنز اوپر تھے۔ مگر جیسے ہی وہ 598 رنز تک پہنچے تو کپتان الیسٹر کک نے ڈیکلئیر کرنے کا فیصلہ کرلیا اور یوں پاکستان پر 75 کی برتری حاصل کرلی۔

اب تک تو ایسا لگ رہا تھا کہ پاکستان بھی سست روی سے بلے بازی کرے گا اور یوں پہلا ٹیسٹ میچ توقعات کے عین مطابق ڈرا ہوجائے گا۔ مگر جیمز انڈرسن کی جانب سے ابتدائی دو وکٹوں کے بعد میچ نے کروٹ لینے کا آغاز کیا۔ پہلے شاند مسعود بالکل ویسے ہی آوٹ ہوئے جیسے پہلی اننگ میں ہوئے تھے یعنی خود کو بچاتے بچاتے۔ اُن کے آوٹ ہوتے ہی پہلی اننگ کے ہیرو شعیب ملک بھی آوٹ ہوگئے۔

دو وکٹیں گرنے کے بعد محمد حفیظ اور یونس خان نے ذمہ داری دکھائی اور کھانے کے وقفے تک پاکستان کو مزید کسی نقصان سے بچانے میں کامیاب رہے۔

مگر کھانے کے وقفے کے بعد حفیظ غلطی فہمی کی بنیاد پر رن آوٹ ہوگئے، اُنہوں نے 34 رنز بنائے تھے۔ بظاہر تو پاکستان کے پاس سات وکٹیں باقی تھیں مگر غیر یقنی کارکردگی کے لیے مشہور پاکستانی کھلاڑیوں کے حوالے سے خدشات مسلسل جنم لے رہے تھے۔

یونس خان اور مصباح الحق کی ذمہ دارانہ بلے بازی نے خدشات کو کچھ وقت کے لیے تو ختم کیا اور چائے کے وقفے تک صورتحال ایسی ہی چلتی رہی۔

لیکن چائے کے وقفے کے بعد تو یہ خیال ہی نہیں آرہا تھا کہ یہ وہی وکٹ ہے جس پر گزشتہ چار دنوں سے مسلسل تنقید ہورہی ہے۔

پہلی اننگ میں بدترین گیند بازی کرنے والے عادل رشید نے شاندار گیند بازی کرتے ہوئے 5 وکٹیں لیں اور دنیا کو بتادیا کہ پہلی اننگ میں غلطی اُن کی نہیں بلکہ وکٹ کی تھی۔

پہلے 45 رنز بناکر یونس خان آوٹ ہوئے، پھر فوری طور پر اسد شفیق بھی چلتے بنے۔ اب مصباح الحق اور سرفراز احمد پاکستان کے لیے آخری اُمید تھے۔ اسی موقع پر کک نے گیند بازی کے لیے معین علی کو بلایا اور اُنہوں نے آتے ہیں 51 رنز پر کریز پر موجود مصباح الحق کو کلین بولڈ کردیا۔ اب بھی قومی ٹیم کے پرستاروں کو یہ امید تھی کہ سرفراز دھوکا نہیں دے گا۔ لیکن دوسری جانب آنے والا کوئی بھی کھلاڑی عادل رشید اور معین علی کا سامنا نہ کرسکا اور پھر سرفراز نے بھی دھوکا دیدیا۔ یوں پاکستان کی پوری ٹیم 173 رنز بناکر ڈھیر ہوگئی۔ یعنی انگلستان کو 21 اوورز میں صرف 99 رنز درکار تھے۔

بظاہر یہ ہدف بہت معمولی لگ رہا تھا اور وکٹ کے بدلتے ہوئے تیور یہ امید دلارہے تھے کہ شاید کچھ انہونی ہوجائے۔

مگر انگینڈ بھی میچ جیتنا چاہتا تھا اور یہی وجہ ہے کہ اُس نے جارحانہ انداز میں اننگ کا آغاز کیا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اُس کو ابتداء میں اہم وکٹوں سے ہاتھ دھونا پڑا لیکن پھر بھی انگلستان کی نظریں فتح پر مرکوز تھی یہی وجہ تھی کہ حکمت عملی کو تبدیل نہیں کیا گیا۔

اسپنرز کی وکٹ کے لیے سازگار وکٹ کا شعیب ملک ذوالفقار بابر نے خوف فائدہ اُٹھایا اور 35 رنز پر 3 کھلاڑیوں کو پویلین کی جانب روانہ کردیا تھا۔

لیکن انگلینڈ اپنے مقصد کی جانب بتدریج بڑھ رہا تھا مگر اِس موقع پر قدرت نے پاکستان کی حمایت کا فیصلہ کیا اور میچ کو کم روشنی کے سبب ختم کرنا پڑا۔ اگر اِس موقع پر انگلستان کو دو سے تین اوور اور مل جاتے تو میچ کا نتیجہ یقینی تھا۔

انگلستان کے کپتان کک کو 263 رنز کی شاندار اننگ کھیلنے پر میچ کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا۔

دونون ٹیموں کے درمیان دوسرا ٹیسٹ میچ دبئی میں 22 اکتوبر سے شروع ہوگا۔