شارجہ پاکستان کی واپسی، لیکن مقابلہ برابری کا

2 1,041

شارجہ میں جاری پاک-انگلستان تیسرا ٹیسٹ دو دن انگلستان کے حق میں جھکے رہنے کے بعد بالآخر تیسرے روز پاکستان کی واپسی سے برابری کی بنیاد پر پہنچ گیا ہے۔

تیسرے روز کے آغاز پر میچ مکمل طور پر انگلستان کی گرفت میں تھا، 222 رنز پر اُس کے صرف چار کھلاڑی آؤٹ تھے۔ یعنی پاکستان کی برتری کے خاتمے کے لیے صرف 12 مزید رنز درکار تھے۔ جس طرح جیمز ٹیلر اور جونی بیئرسٹو بلے بازی کررہے تھے، صاف محسوس ہورہا تھا کہ پاکستان کو بڑے خسارے کا سامنا کرنا ہوگا اور مقابلے میں واپسی مشکل ہوجائے گی۔ مگر دن کے آغاز سے ہی پاکستان نے میچ میں واپسی کے اشارے دے دیے تھے کیونکہ صرف چار رنز کے اضافے کے بعد ہی راحت علی نے سیٹ بلے باز جیمز ٹیلر کو آؤٹ کرکے ٹیم کو راحت بخشی۔ ٹیلر نے 76 رنز بنائے اور آخری ٹیسٹ میں اپنی شمولیت کا حق ادا کیا۔ کیونکہ بین اسٹوکس گزشتہ روز ایک کیچ پکڑنے کی کوشش میں زخمی ہوگئے تھے، اس لیے وہ اپنے نمبر پر بلے بازی کے لیے نہیں آئے۔ ان کی جگہ سمیت پٹیل کو بھیجا گیا۔ اب کیونکہ کوئی مستند بلے باز نہیں بچا تھا اس لیے بنیادی ذمہ داری جونی بیئرسٹو پر تھی کہ وہ کریز پر قیام کریں اور برتری میں مزید اضافہ کریں۔ لیکن جب ٹیم کو اُن کی سب سے زیادہ ضرورت تھی تو عین اُسی وقت ذوالفقار بابر کے ہاتھوں کلین بولڈ ہوگئے۔ 43 رنز بنانے کی اننگز ختم ہوئی تو مجموعہ 245 رنز پر 6 کھلاڑی آؤٹ تک پہنچ گیا۔

اب سمیت پٹیل اور عادل رشید کو ہی برتری میں اضافے کے لیے کچھ کرنا تھا۔ دوسرے ٹیسٹ کی آخری اننگز میں عادل نے جس ذمہ دارانہ بلے بازی کا مظاہرہ کیا تھا، اس لیے پاکستانیوں کو ان سے بہت خطرہ محسوس ہو رہا تھا۔ مگر دلچسپ بات یہ ہوئی کہ جو بھی پاکستان کے لیے خطرہ تھا، گیندباز اسے جلدی آؤٹ کرنے میں کامیاب ہوتے رہے۔ جب یاسر شاہ اور ذوالفقار بابر پر اثر نہیں ثابت ہو رہے تھے تو شعیب ملک کو میدان میں اتارا گیا جنہوں نے عادل رشید کی 8 رنز کی اننگز کا خاتمہ کردیا۔

سمیت پٹیل کچھوے کی رفتار سے رنز آگے بڑھا رہے تھے۔ وہ اپنی بہترین انفرادی اننگز 42 رنز تک پہنچے اور ایسی گیند پر آؤٹ ہوئے جس پر شین وارن کو یاسر شاہ پر بہت فخر محسوس ہوا ہوگا۔ لیگ اسٹمپ پر پڑنے والی گیند بلے باز کے دفاع کو توڑتی ہوئی آف اسٹمپ کے بالائی حصے پر جا لگی۔ اس کے ساتھ ہی سمیت نے بھی بوریا بستر لپیٹ لیا۔ شعیب ملک نے دوسرے کنارے سے اینڈرسن کی وکٹ بھی گرادی تو بین اسٹوکس کو زخمی کندھے کے ساتھ مجبوراً اترنا پڑا۔ ان کی ہمت اور حوصلے کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ لیکن وہ جس مقصد کے لےی میدان میں اترے تھے، وہ پورا نہ ہوسکا۔ آخری وکٹ 10 رنز کا اضافہ ہی کرسکی اور وہ شعیب ملک کی چوتھی وکٹ بن گئے۔ انگلستان کی پہلی اننگز 306 رنز پر تمام ہوئی یعنی ایک مشکل وکٹ پر وہ حوصلہ افزا 72 رنز کی برتری حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔

پاکستان کی جانب سے شعیب ملک نے 33 رنز دے کر 4 کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا۔ تین وکٹیں یاسر شاہ کو اور دو راحت علی کو ملیں جبکہ ایک کھلاڑی کو ذوالفقار بابر نے آؤٹ کیا۔

اب پاکستان کے لیے اہم ترین کام پہلے 72 رنز کی برتری کا خاتمہ تھا۔ کیونکہ اس کے بعد ہی وہ ہدف دینے کے لیے کوشش کرتا۔ بہت ضروری تھا کہ ابتدائی بلے باز اچھی شراکت داری قائم کریں۔ اظہر علی کو پہلی اننگز کے صفر کا داغ دھونا تھا اور حفیظ کے لیے خود کو ٹیسٹ دستے کا اہم رکن ثابت کرنا اور جیسی ان دونوں سے امیدیں تھی، بالکل ویسا ہی دونوں نے کھیل بھی پیش کیا۔

ابتداء میں دونوں جمی اینڈرسن اور اسٹورٹ براڈ کے خلاف جدوجہد کرتے دکھائی دیے۔ یہاں تک کہ ایک گیند پر تو امپائر نے حفیظ کو وکٹوں کے پیچھے کیچ آؤٹ بھی دے دیا لیکن ریویو پر حفیظ نے اپنی جان بخشوا لی۔ پھر ان کا ایک کیچ بھی چھوٹا، جو وکٹ کیپر جانی بیئرسٹو کی ناتجربہ کاری کی وجہ سے ہوا۔ بہرحال، دیکھتے ہی دیکھتے حفیظ نصف سنچری بنا گئے اور پاکستان بغیر کسی وکٹ کے نقصان کے برتری دینے کے مقام پر آ گیا۔ 100 رنز تک پاکستان کی کوئی وکٹ نہیں گری تھی اور جس طرح دونوں بلے باز سیٹ ہوگئے تھے اس سے لگتا تھا کہ انگلستان کو گیند اور وکٹ سے مدد ملنے کے باوجود وکٹ لینے میں سخت مشکل ہوگی۔ لیکن ایک غلطی نے پاکستان کو بالادست مقام سے محروم کردیا۔ اظہر علی اور محمد حفیظ کی رن لینے میں جلد بازی کا نتیجہ یہ نکلا کہ اظہر بری طرح رن آؤٹ ہوئے۔ ان کی اننگز صرف 34 رنز تک کی محدود رہی۔ ابھی اس دھچکے سے سنبھلے ہی نہیں تھے کہ 40 اوور پرانا گیند دیوانہ وار سوئنگ ہونا شروع ہوگیا۔ اینڈرسن نے ایک بہت ہی خوبصورت گیند پر شعیب ملک کو صفر کی ہزیمت سے دوچار کیا۔ پہلے ٹیسٹ میں ڈبل سنچری اور اس کے بعد تمام اننگز میں ناکامی کا صدمہ اس بری طرح ہوا کہ شعیب نے دن کے اختتام پر ٹیسٹ کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان ہی کردیا۔

یکدم دو وکٹیں گرنے سے حفیظ اور یونس خان پر سخت دباؤ آ گیا۔ سنبھلتے سنبھلتے جب دن کے اختتامی مرحلے پر پہنچے تو یونس کی اننگز صرف 14 رنز پر ختم ہوگئی۔ انہیں گیند کے سوئنگ کا اندازہ نہیں تھا اور آف اسٹمپ سے کہیں باہر آنے والی براڈ کی گیند کو چھوڑنے کی کوشش کی۔ گیند گو کہ کہیں باہر ان کے پیڈ پر لگی لیکن وہ بالکل درست سمت میں سوئنگ کررہی تھی۔ کیونکہ یونس نے شاٹ نہیں کھیلا تھا، اس لیے گیند جس مقام پر ٹکرائی، وہ ایل بی ڈبلیو کے فیصلے کے لیے اہم نہیں تھا۔ امپائر نے کافی دیر سوچا اور انگلی فضا میں بلند کردی۔ کئی شائقین کے لیے یہ فیصلہ بڑا دھچکا تھا کیونکہ گیند واقعی کہیں باہر ٹکرائی تھی اور شاید یہی سوچ کر یونس نے ریویو بھی لیا۔ تیسرے امپائر نے پایا کہ گیند آف اسٹمپ کو چھوتی اور یوں فیلڈ امپائر کے فیصلے سے اتفاق کیا۔

جب تیسرے دن کا کھیل ختم ہوا تو محمد حفیظ 97 رنز پر کھیل رہے تھے اور نائٹ واچ مین کی ذمہ داری نبھانے والے راحت علی بھی 8 گیند تک اپنی وکٹ کی حفاظت کر چکے تھے۔ اب پاکستان کی برتری 74 رنز کی ہے اور اسے چوتھے دن کے پہلے سیشن میں بہت سنبھل کر کھیلنا ہوگا۔ اگر اب پاکستان کی دو، تین وکٹیں جلد گرتی ہیں تو بلاشبہ انگلستان مقابلے پر حاوی ہوجائے گا۔ لیکن پہلے دو سیشن میں عمدہ کھیل مقابلے کو بہت ہی دلچسپ مرحلے میں داخل کرسکتا ہے۔ کسے خبر کہ ابوظہبی اور دبئی کے بعد شارجہ میں بھی ایک سنسنی خیز معرکہ دیکھنے کو ملے؟