شعیب ملک، پرواز سے پہلے ہی ہمت ہار گئے
طویل عرصے بعد پرواز کا موقع ملا، اڑان کا پہلا مرحلہ بھی بخوبی طے ہوا لیکن جب بلندیوں تک پہنچنے کا وقت آیا تو ارادے تبدیل ہوگئے۔ نئی منزل کے پانے کےبجائے سفر کے خاتمے کے اعلان پر سبھی حیران رہ گئے۔ آپ اس تمہید سے سمجھ ہی گئے ہوں گے کہ شعیب ملک کا ذکر کررہے ہیں۔ جو پانچ سال بعد ٹیسٹ کرکٹ میں شاندار انداز سے واپس آئے اور اسی سیریز میں اپنی آخری اننگز کھیلتے ہی ریٹائرمنٹ کا اعلان کردیا۔
شارجہ میں جاری پاک-انگلستان تیسرے دن کے خاتمے پر، جب پاکستان کسی حد تک مقابلے میں واپس بھی آ گیا تھا، شعیب ملک صفر پر آؤٹ ہونے کو اتنا سنجیدہ لیں گے، اس کے بارے میں کسی نے سوچا بھی نہیں تھا۔
مقابلے کے بعد روزانہ کی بنیاد پر ہونے والی پریس کانفرنس میں 33 سالہ شعیب ملک نے کہا کہ وہ ٹیسٹ کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کررہے ہیں۔ دوران گفتگو انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ سمجھتے ہیں یہ ٹیسٹ کرکٹ سے علیحدگی کا سب سے اچھا وقت ہے۔ اس موقع پر انہوں نے اہل خانہ، کرکٹ بورڈ، ساتھی کھلاڑیوں اور ساتھ دینے والے دیگر افراد سبھی کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ اب تک وہ کوئی ورلڈ کپ نہیں کھیل سکے، اس لیے اب پوری توجہ 2019ء میں انگلستان میں ہونے والے عالمی کپ پر ہے۔ ’’کرکٹ میرا جنون ہے، اور ہمیشہ رہے گا اور یہی وجہ ہے کہ میں فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلتا رہوں گا۔ میری ٹیسٹ سے علیحدگی کی بڑی وجہ یہ ہے کہ گھر والوں کو وقت اور نئے کھلاڑیوں کو موقع دینا چاہتا ہوں‘‘۔ حیران کن امر یہ ہے کہ وہ یہ بات اس وقت کہہ رہے ہیں جب انہیں پانچ سال بعد پہلی بار ٹیسٹ کھیلنے کا موقع ملا ہے۔
شعیب ملک کو ڈومیسٹک میں لگاتار اچھا کھیل پیش کرنے پر جیسے ہی ایک روزہ اور ٹی ٹوئنٹی میں دوبارہ موقع دیا گیا، اُنہوں نے خود کو ثابت کیا اور اِسی اچھی کارکردگی نے اُن کے لیے ٹیسٹ کرکٹ کے دروازے بھی کھولے۔ یقیناً یہ وقت شعیب ملک کے لیے بہت اہمیت کا حامل تھا اور اچھی کارکردگی دکھانے کے لیے اُن پر دباؤ بھی تھا۔ پھر جس طرح اُنہوں نے ڈبل سنچری کے ساتھ واپسی کی، وہ بھی قابل دید تھی۔
ابوظہبی میں کھیلا گیا پہلا ٹیسٹ شعیب ملک کی واپسی کا اعلان تھا۔ جب ابتدائی لمحات ہی میں شعیب کو میدان میں اترنا پڑا تو وہ پہلے اس دباؤ میں آئے کہ پانچ سال بعد واپسی ہوئی ہے، اب کھیل دکھانا ہوگا اور دوسرا یہ کہ پہلی وکٹ جلد گرنے کے بعد اب ٹیم کو سنبھالنا ہوگا۔ حقیقت یہ ہے کہ کھلاڑی کا معیار بھی اسی وقت معلوم ہوتا ہے جب وہ دباؤ میں ہوتا ہے، اور ایسا کچھ ہی شعیب ملک نے کر دکھایا۔ پہلے اُنہوں نے حفیظ کے ساتھ 168 کی شراکت داری قائم کرتے ہوئے پاکستان کو مشکل صورتحال سے نکالا، پھر یونس خان کے ساتھ مل کر 74 رنز کا اضافہ کیا۔ یہ دونوں شراکت داریاں یقیناً قابل تعریف تھیں مگر جو اصل کام ہوا وہ شعیب اور اسد شفیق نے پانچویں وکٹ پر انجام دیا۔ 248 رنز کی ساجھے داری اور مجموعے کو 500 رنز تک پہنچا کر۔
420 گیندوں پر 24 چوکوں اور 4 چھکوں سے مزین 245 رنز کی یادگار اننگز سے قبل شعیب کی بہترین انفرادی باری 148 رنز کی تھی جو انہوں نے 2006ء میں سری لنکا کے خلاف کھیلی تھی۔ 9 سال بعد انہوں نے کیریئر کی پہلی ڈبل سنچری بنائی اور پاکستان کو 523 رنز تک پہنچایا۔ لیکن جتنی دھماکے دار یہ ’’انٹری ‘‘ تھی، شعیب اس رفتار کو برقرار نہ رکھ سکے اور آئندہ پانچ اننگز میں صفر، 2، 7، 38 اور صفر سے آگے نہ بڑھ سکے۔
صرف ٹیسٹ ہی میں نہیں شعیب ملک کی ایک روزہ میں واپسی بھی دھواں دار تھی۔ مسلسل ناکامیوں کے بعد 2013ء کی چیمپئنز ٹرافی نے ان پر قومی کرکٹ ٹیم کے دروازے بند کردیے یہاں تک کہ مئی میں زمبابوے کے خلاف تاریخی سیریز میں انہیں موقع دیا گیا جہاں انہوں نے پہلے ہی مقابلے میں سنچری بنا کر اور میچ کے بہترین کھلاڑی کا ایوارڈ حاصل کرکے مزید تاریخی بنا دیا۔ یہ وہ سیریز تھی جس کے ذریعے 2009ء کے بعد پاکستان کی سرزمین پر پہلی بار بین الاقوامی کرکٹ واپس آئی۔
شعیب ملک کی خاص بات یہ بھی ہے کہ یہ موجودہ ٹیم کے اُن چند کھلاڑیوں میں شامل ہیں، جن کے کیرئیر کا آغاز اکیسویں صدی کے آغاز سے پہلے ہوا تھا۔ اُنہوں نے اپنا پہلا ایک روزہ بین الاقوامی مقابلہ اکتوبر 1999 میں شارجہ میں منعقدہ چیمپئنز ٹرافی میں کھیلا تھا۔نہیں، یہ وہ والی چیمپئنز ٹرافی نہیں آئے جو آئی سی سی کرواتی ہے۔ مسلسل اچھی کارکردگی کا انعام شعیب ملک کو 2001ء میں ملا۔ جب نوجوان کھلاڑی کو پاکستان کی جانب سے ٹیسٹ کیپ پہنائی گئی۔ 2003ء تک کبھی وہ ٹیم میں رہتے تو کبھی باہر، مگر 2003 کے عالمی کپ میں بدترین شکست کےبعد سینئرز کے خلاف ’’آپریشن کلین اپ‘‘ نے بہت سے نئے کھلاڑیوں کے ساتھ ساتھ شعیب ملک کو بھی مستقل جگہ دلادی ۔ اِس کے باوجود شعیب ٹیسٹ کرکٹ میں اُس طرح کامیاب نہ ہوسکے جس طرح ایک روزہ کرکٹ میں ہوئے۔
اگر شعیب ملک کے ٹیسٹ کیرئیر پر نظر ڈالی جائے تو وہ ہرگز اُن کے شایان شان نہیں ہے۔ اُنہوں نے شارجہ کو ملا کر کل 35 ٹیسٹ کھیلے اور 35 کے معمولی اوسط کے ساتھ محض 1898 رنز بنائے حالانکہ انہیں 60 اننگز کھیلنے کا موقع ملا۔ ان رنز میں دو سنچریاں اور ایک ڈبل سنچری بھی شامل ہے۔ چلیں اگر اُن کو آل راؤنڈر سمجھا جائے تو اُس میدان میں بھی وہ خود کو نہ منواسکے اور 35 مقابلوں وہ صرف 29 وکٹیں ہی لے سکے، جس میں جاری شارجہ ٹیسٹ کی پہلی اننگز میں 33 رنز دے کر 4 وکٹیں حاصل کرنا ان کی بہترین کارکردگی رہی۔
ٹیسٹ کے برعکس یقیناً شعیب ملک نے ایک روزہ کرکٹ میں ثابت کیا ہے کہ وہ پاکستان کے سب سے کامیاب ترین آل راؤنڈرز میں سے ایک ہیں۔ اُنہوں نے 227 ایک روزہ مقابلوں میں 34.62 کی اوسط سے 5990 رنز بنا رکھے ہیں جن میں آٹھ سنچریاں اور 34 نصف سنچریاں شامل ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ اُنہوں نے اپنے کیرئیر میں 147 وکٹیں بھی لی ہیں۔گو کہ ان کا پورا ایک روزہ کیریئر مثالی ہے لیکن اگر روایتی حریف کے خلاف بات کی جائے تو شعیب ملک یقیناً بھارت کے لیے ڈراؤنا خواب رہے ہیں اور ایسا کہنے کی وجہ ہیں اعداد و شمار۔ شعیب ملک نے بھارت کے خلاف 37 ایک روزہ میچ کھیلے جس میں 49.51 کی اوسط سے 1634 رنز بنائے ، صرف یہی نہیں بلکہ کیرئیر کی آٹھ میں سے چار سنچریاں روایتی کے خلاف بنائیں اور دس نصف سنچریاں بھی اسکور کیں۔ دونوں ممالک کے درمیان 2005ء میں کھیلے جانے والی 6 مقابلوں کی سیریز میں شعیب ملک نے 45 کی اوسط سے 269 رنز بنائے تھے، جس میں تین نصف سنچریاں بھی شامل تھیں۔ یہی وہ کارکردگی تھی جس کی بدولت پاکستان نے سیریز میں بھارت کو چار۔دو سےشکست دی تھی۔
یہ کارکردگی صرف بھارتی سرزمین پھر ہی نہیں رہی بلکہ جب بھارت نے پاکستان کا جوابی دورہ کیا تو اُس وقت بھی ملک چھائے رہے۔ پہلے پشاور میں 90 اور راولپنڈی میں 95 کی اننگز کھیلیں مگر لاہور میں ہونے والے میچ میں بالآخر سنچری جڑ ڈالی۔ اگر بھارت کے خلاف شعیب ملک کی سب سے یادگار اننگز کی بات کی جائے تو وہ 2009 میں چیمپئنز ٹرافی میں کھیلی تھی جس میں 128 رنز بناکر پاکستان کو اہم ترین کامیابی دلائی ۔ اس کے علاوہ کیریئر کی سب سے بڑی اننگز بھی بھارت کے خلاف ہی رہی جو انہوں نے 2004 میں ایشیاء کپ میں کھیلی تھی جس میں اُنہوں نے 143 رنز بنائے۔
ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں بھی شعیب ملک کی کارکردگی قابل ذکر ہے۔ اُنہوں نے 65 میچوں میں 22.91کی اوسط سے 1002 رنز بنائے ہیں جبکہ اُن کا اسٹرائیک ریٹ 107.48 ہے جس میں تین نصف سنچریاں بھی شامل ہیں۔ شعیب ملک 2007ء میں کھیلے جانے والے پہلے ٹی ٹوئنٹی میں پاکستان کے کپتان بھی تھے جس میں پاکستان کو بھارت کے ہاتھوں کانٹے دار فائنل میں شکست کا سامنا کرنا پڑا، جبکہ وہ 2009ء میں ورلڈ چیمپئن بننے والی پاکستانی ٹیم کا بھی حصہ تھے، جس کے فائنل میں اُنہوں نے 24 رنز کی مختصر پُر اثر اننگز کھیلی تھی۔
شعیب ملک نے پاکستان کی باگ ڈور بھی سنبھالی ہے۔ اُنہوں نے 3 ٹیسٹ، 36 ایک روزہ اور 17 ٹی ٹوئنٹی میچوں میں قوی ٹیم کی قیادت کی ہے۔ 2009ء تک سب کچھ شعیب ملک کے حق میں چل رہا تھا مگر پھر آسٹریلیا کے خلاف سیریز کا وقت آپہنچا جس میں پاکستان کو بدترین شکست ہوئی۔ سیریز کے تمام ٹیسٹ، تمام ون ڈے اور سب ٹی ٹوئنٹی مقابلوں میں پاکستان کو شکست ہوئی۔ جس کے بعد پاکستان کرکٹ بورڈ نے تحقیقاتی کمیٹی قائم کردی جس میں شکست کی وجہ باہمی سیاست کو قرار دیا گیا۔ پھر شعیب ملک پر بُرا وقت شروع ہوگیا اور بورڈ نے اُن پر ایک سال کی پابندی عائد کردی، جب اُن کی پابندی ختم ہوئی تو مزید کام خراب اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل نے کردیا۔
پھر ایک وقت ایسا آیا کہ شعیب ملک کی واپسی کی اُمیدیں ہی ختم ہوگئیں مگر قسمت، اور ساتھ ساتھ محنت، کے آگے کس کی چلتی ہے؟ 2015ء میں یہ وہی شعیب ملک ہیں جن کو متعدد بار خراب کارکردگی کی وجہ سے بٹھادیا گیا تھا، ٹیسٹ، ایک روزہ اور ٹی ٹوئنٹی تینوں میں اہم کھلاڑی کی حیثیت سے واپس آئے۔ ٹیسٹ چھوڑنے کے باوجود اگر انہیں محدود اوورز کی کرکٹ میں اچھی طرح استعمال کیا گیا تو وہ پاکستان کے لیے اہم کھلاڑی ثابت ہو سکتے ہیں اور فتوحات میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔
شعیب ملک کے بین الاقوامی کیریئر پر ایک نظر
مقابلے | رنز | اوسط | بہترین اننگز | سنچریاں | نصف سنچریاں | وکٹیں | بہترین باؤلنگ | |
---|---|---|---|---|---|---|---|---|
ٹیسٹ | 35 | 1898 | 35.14 | 245 | 3 | 8 | 29 | 4/33 |
ایک روزہ | 227 | 5990 | 34.62 | 143 | 8 | 34 | 147 | 4/19 |
ٹی ٹوئنٹی | 65 | 1077 | 22.91 | 57* | 0 | 3 | 21 | 2/7 |