رفعت اللہ کی آمد، دیر آید، درست آید؟

2 1,054

رفعت اللہ مہمند نے 19 سال کی عمر میں جب اپنے کیریئر کا آغاز کیا تھا تو ان کے وہم و گمان میں بھی نہ ہوگا کہ بہترین کارکردگی دکھانے کے باوجود وہ کبھی قومی ٹیم شامل نہیں ہوپائیں گے۔ رفعت نے اپنی کارکردگی کے ذریعے بہت کوشش کی مگر قومی ٹیم کے دروازے ان پر کبھی نہ کھلے۔ پھر جب اُمیدیں ختم ہوگئیں، آرزوئیں باقی نہ رہیں اور تمناؤں کے چراغ گل ہونے لگے، تب ان کا بلاوا آ گیا۔ اس سے پہلے کہ رفعت اللہ کرکٹ کو ہی خیرباد کہہ دیتے، ان کی دلی خواہش پوری ہوتی دکھائی دے رہی ہے اور انگلستان کے خلاف آئندہ ٹی ٹوئنٹی سیریز میں ہوسکتا ہے کہ انہیں پہلی بار پاکستان کی نمائندگی کا موقع ملے۔

1996ء لے کر آج تک رفعت اللہ نے ڈومیسٹک کرکٹ کا ایک سیزن بھی نہیں چھوڑا۔ کیریئر کا آغاز پشاور سے کرنے کے بعد وہ حبیب بینک کی جانب سے کھیلے اور حال ہی میں واپڈا سے وابستہ ہوئے ہیں۔ دس سال کا عرصہ گزارنے کے بعد 2006ء میں نام قومی دستے میں شمولیت کے لیے ان کا نام گردش گرنے لگا جب ان کا بلّا قائد اعظم ٹرافی میں مسلسل رنز اگل رہا تھا۔ وہ سیزن میں سب سے زیادہ رنز بنانے والے بلے بازوں میں دوسرے نمبر پر آئے مگر یہ کارکردگی بھی ان کو پاکستان 'اے' تک رسائی دینے میں ہی کامیاب ہوسکی۔

اب پشاور کو ڈومیسٹک کرکٹ میں ہر سطح پر چیمپئن بنانے کے بعد رفعت اللہ بالآخر قومی ٹیم میں شامل ہوگئے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان کا خواب محض قومی ٹیم کی نمائندگی نہیں تھا، بلکہ اچھی کارکردگی بھی ہے۔ "ہم سب جانتے ہیں کہ پاکستان کے لیے کھیلنے کی خواہش تو سبھی کی ہوتی ہے مگر یہ ممکن نہیں کہ سب کھیلیں، اس کے لیے بڑا سخت مقابلہ ہوتا ہے۔ اب اگرچہ میں ٹیم میں شامل کرلیا گیا ہوں، مگر میرے پاس زیادہ وقت نہیں ہے، اِس لیے کوشش ہے کہ جتنا بھی موقع ملے میں اچھا کھیل پیش کرنے کی کوشش کروں اور ٹیم کی فتوحات میں اہم کردار ادا کروں۔"

39 سالہ رفعت اللہ کا مزید کہنا ہے کہ اُنہوں نے اپنے طویل ڈومیسٹک کیریئر میں جو کچھ بھی سیکھا اور جو کچھ صلاحیتیں رکھتا ہوں ان کے بل بوتے پر کوشش کروں گا کہ اپنے بین الاقوامی کیریئر میں استعمال کروں۔ اُن کا کہنا تھا کہ مجھے اُس وقت موقع ملا ہے جب میں کرکٹ کو خیرباد کہنے کا سوچ رہا تھا، اِس لیے میں کوشش کروں گا کہ جاتے جاتے موثر کھیل پیش کرجاؤں، اگر مجھے لگا کہ میں ایسا نہیں کرپارہا تو پھر ٹیم پر بوجھ بننا پسند نہیں کروں گا۔

اگر 2003ء سے 2005ء کے درمیان کی بات کریں تو رفعت اللہ نے پاکستان 'اے' کی جانب سے بھی 50 سے زیادہ کے اوسط سے رنز بنائے۔ لیکن کیونکہ وہ سب سے زیادہ رنز بنانے والوں میں سرفہرست نہیں تھے، اس لیے نظر کرم نہیں ہوئی۔ پھر 2009ء میں انہوں نےعامر سجاد کے ساتھ 580 رنز کی شراکت داری کا ریکارڈ قائم کیا جو فرسٹ کلاس کی عالمی تاریخ میں دوسری سب سے بڑی ساجھے داری تھی۔ یہ وہ اننگز تھی جس میں رفعت نے ناقابل شکست 302 رنز بنائے لیکن اس کے باوجود سلیکٹرز کی نظر کرم کے محتاج ہی رہے۔ مایوس ہونے کے بعد رفعت اللہ نے افغانستان کے لیے کھیلنے کی کوشش کی تاکہ وہ عالمی کپ کے لیے ہونے والے کوالیفائنگ راؤنڈ میں کھیل سکیں لیکن بین الاقوامی کرکٹ کے قوانین کی وجہ سے وہ ایسا نہ کرسکے۔

2012-13ء کے سیزن میں وہ ایک بار پھر نمایاں دکھائی دیے۔ صرف 6 مقابلوں میں انہوں نے 425 رنز بنائے جن میں تین سنچریاں بھی شامل تھیں۔ یہ وہی دور تھا جب ڈومیسٹک ٹی ٹوئنٹی ٹورنامنٹ میں رفعت اللہ نے پشاور کی نمائندگی کرتے ہوئے 157.53 کے اسٹرائیک ریٹ سے 230 رنز بنائے اور پشاور کو جتوانے میں اہم کردار ادا کیا۔ رفعت اللہ اس ٹورنامنٹ کے سب سے فٹ کھلاڑی کا اعزاز حاصل کرنے میں کامیاب رہے اور نیشنل کرکٹ اکیڈمی میں ہونے والا فٹنس ٹیسٹ بھی پاس کرلیا۔ اگر اس وقت بھی وہ ٹیم میں جگہ بنانے میں کامیاب ہوجاتے تو ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل ڈیبیو کرنے والے عمر رسیدہ ترین کھلاڑی بنتے۔

نئے خون کا طالب لیکن تجربے کا بھی متمنی پاکستان کرکٹ بورڈ اب رفعت اللہ کو نظر انداز نہیں کر سکتا۔ چیف سلیکٹر ہارون رشید کہتے ہیں کہ رفعت اللہ پر ہماری نظریں بہت طویل عرصے سے ہیں، وہ ڈومیسٹک کے سب سے فٹ کھلاڑی ہیں اور پشاور کے لیے ٹی ٹوئنٹی میں بہت عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ ان کے پاس تجربہ بھی ہے اور تکنیک بھی، فارم بھی شاندار ہے اور فیلڈنگ کے معاملے میں بھی کسی سے پیچھے نہیں۔ یہی وہ خصوصیات ہیں جن کی بنیاد پر ہم رفعت اللہ کو بطور اوپنر ٹیم میں جگہ دے سکتے ہیں۔

لیکن حقیقت یہ ہےکہ رفعت اللہ کی شمولیت دیر آید، درست آید کے مقولے پر پوری نہیں اترتی۔ ایک کھلاڑی کو اس وقت نہیں آزمایا گیا، جب وہ اپنی بہترین کرکٹ کھیل رہا تھا لیکن اب ڈھلتی عمر میں جہاں ناکامی کا امکان بہت زیادہ ہے، یہ کہا جائے گا کہ ڈومیسٹک کرکٹ اور بین الاقوامی کرکٹ میں بہت فرق ہوتا ہے اور رفعت اللہ کی ناکامی اس کا ثبوت ہے۔ بہرحال، ہماری نیک تمنائیں رفعت اللہ کے ساتھ ہیں کہ وہ کرکٹ کو خیرباد کہنے سے پہلے بین الاقوامی سطح پر چند یادیں چھوڑ جائیں ۔