زمبابوے زبردست، آخری اوور میں درکار 18 رنز بنا لیے

بنگلہ دیش کے خلاف ایک روزہ سیریز میں کلین سویپ کی ہزیمت سہنے کے بعد زمبابوے کو جب پہلے ٹی ٹوئنٹی میں بھی شکست ہوئی تو یقیناً زمبابوے کے لیے ایک مشکل مرحلہ آن پڑا۔ دورۂ بنگلہ دیش میں ساکھ بچانے کی خاطر اس کے لیے ضروری تھا کہ دوسرے و آخری ٹی ٹوئنٹی میں کامیابی حاصل کرے اور کم از کم یہاں تو وائٹ واش سے بچ سکے۔ جب آخری اوور میں 18 رنز کا مرحلہ درپیش تھا اور پہلی ہی گیند پر اس کی میلکم والر کی اہم ترین وکٹ گرگئی تو صاف محسوس ہو رہا تھا کہ ایک اور مایوس کن شکست زمبابوے کی منتظر ہے لیکن نوجوان و غیر معروف نیویل ماڈزیوا نے کمال ہی کردیا۔ آخری اوور کی پہلی گیند پر 40 رنز کی عمدہ اننگز کھیلنے والے والر آؤٹ ہوئے تو ماڈزیوا نے اگلی ہی گیند پر چھکا رسید کیا اور تیسری گیند پر دو رنز بنا کر اسٹرائیک اپنے پاس رکھی۔ چوتھی گیند کو ان کو تھرڈمین کی جانب چار رنز ملے اور پانچویں پر انہوں نے گیند کو ڈھاکا کے آسمان کی سیر کراتے ہوئے میدان سے باہر پھینک دیا اور یوں ایک شاندار کامیابی حاصل کی۔
نیویل ماڈزیوا صرف 19 گیندوں پر 28 رنز کی فاتحانہ اننگز کھیلنے کی وجہ سے میچ کے بہترین کھلاڑی قرار پائے جبکہ والر کو سیریز میں عمدہ کارکردگی پر مین آف دی سیریز کا اعزاز ملا۔ مقابلے کا آغاز بنگلہ دیش کے کپتان مشرفی مرتضیٰ کے ٹاس جیتنے سے ہوا، جنہوں نے پہلے بلے بازی کا فیصلہ کیا جس کی یقیناً واحد وجہ اچھی بلے بازی کے ذریعے زمبابوے کو ایک مشکل ہدف دینا ہوگی تاکہ میزبان بڑے مجموعے تلے دب جائے اور ایک اور ناکامی سے دوچار ہو۔
گرچہ تمیم اقبال اور امر القیس نے تیز آغاز فراہم کیا لیکن وہ زیادہ دیر تک کریز پر نہ ٹک سکے اور چوتھے اوور میں 34 کے مجموعے پر تمیم کی 21 رنز کی اننگز ماڈزیوا کے ہاتھوں تمام ہوئی اور محض ایک رن کے اضافے کے بعد قیس بھی 10 رنز بنا کر چلتے بنے۔
اوپنرز کے جانے کے بعد سوائے ون ڈاؤن بلے باز انعام الحق کے کوئی بنگلہ دیشی کھلاڑی نمایاں اننگز نہ کھیل سکا۔ مشفق الرحیم صرف 9، شبیر رحمٰن 17، ناصر حسین 3، محمود اللہ 8، کپتان مرتضیٰ صفر جبکہ عرفات سنی صرف 5 رنز بنانے کے بعد آؤٹ ہوئے۔ انعام 51 گیندوں پر 47 رنز کے ساتھ سب سے نمایاں بلے باز رہے۔ بنگلہ دیش کی اننگز 20 اوورز میں 9 وکٹوں کے نقصان پر صرف 135 رنز پر مکمل ہوئی۔ زمبابوے کی جانب سے تناشی پنیانگرا نے تین، جبکہ ماڈزیوا اور گریم کریمر نے دو، دو وکٹیں حاصل کیں۔ ایک کھلاڑی کو ٹینڈائی چسورو نے آؤٹ کیا۔ درحقیقت بنگلہ دیش کے ہاتھ سے مقابلہ نکلا ہی اس وقت جب صرف 37 رنز کے اضاف سے اس کی چھ وکٹیں گریں۔
اب 136 رنز کا ہدف دیکھنے اور سننے میں نسبتاً آسان دکھائی دیتا ہے لیکن زمبابوے نے اس کو مشکل ترین بنانے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔ آدھی ٹیم صرف 39 رنز پر پویلین لوٹ گئی تھی۔ یہ وہ وقت تھا کہ بنگلہ دیش کو یقین ہوگیا تھا کہ اب کوئی اس سے کامیابی نہیں چھین سکتا۔ اسے انتظار تھا کہ کب پانچ وکٹیں گریں اور ایک اور کلین سویپ اسے حاصل ہوجائے۔
مگر مردِ بحران میلکم والر ابھی موجود تھے۔ ایک مرتبہ پھر انہوں نے باقی ماندہ کھلاڑیوں کے ساتھ مل کر رسوائی سے بچنے کا سامان کیا۔ انہوں نے پہلے لیوک جونگوے کے ساتھ مل کر 55 رنز کی شراکت داری قائم کی اور جب معاملات گرفت میں نظر آنے لگے تو جونگوے آؤٹ ہوگئے۔ انہوں نے 38 گیندوں پر 34 رنز بنائے۔
اس مرحلے پر عمدہ باؤلنگ کرنے والے ماڈزیوا میدان میں اترے اور ادھورے مشن کی تکمیل میں جت گئے۔ دونوں 24 رنز جوڑ کر معاملے کو آخری اوور میں 18 رنز تک لے آئے جو بلاشبہ ایک مشکل ہدف تھا لیکن والر اور ماڈزیوا جس طرح کھیل رہے تھے، توقع تھی کہ وہ اتنی آسانی سے مقابلے کو ہاتھ سے جانے نہیں دیں گے۔ آخری اوور کی پہلی گیند پر ناصر حسین کے ہاتھوں والر کا آؤٹ ہونا فیصلہ کن وار لگتا تھا لیکن ماڈزیوا نے وہ کر دکھایا، جو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔ پھر پانچویں گیند پر فاتحانہ چھکے کے بعد جس طرح انہوں نے بلّا پھینک کر جشن منایا، ایسا لگ رہا تھا خود انہیں بھی یقین نہیں آیا کہ وہ کیا کارنامہ کر بیٹھے ہیں؟
ناصر حسین کے لیے یہ ایک مایوس کن دن رہا۔ جب ان کی سخت ضرورت تھی تو بلے بازی میں صرف 3 رنز بنا سکے اور جہاں تمام گیندبازوں نے اچھی باؤلنگ کی،وہ 3.5 اوورز میں 45 رنز دے کر ٹیم کی شکست کا اہم سبب بنے۔ بنگلہ دیش کی جانب سے الامین حسین نے 20رنز دے کر تین وکٹیں جبکہ مستفیض الرحمٰن، عرفات سنی اور ناصر حسین کو ایک، ایک وکٹ ملی۔