بلے باز میچ ڈرا کرنے میں کامیاب ہوگئے

0 1,000

آسٹریلیا اور نیوزی لینڈی کے درمیان پرتھ کے میدان میں کھیلا جانے والا دوسرا ٹیسٹ میچ اِس اعتبار سے انتہائی منفرد تھا کہ اِس وکٹ پر آسٹریلوی گیند باز مچل اسٹارک سو میل فی گھنٹہ کی رفتار سے گیند کرنے والے دنیا کے پانچویں گیند باز بن گئے، مگر جس وکٹ پر یہ کارنامہ سر انجام دیا گیا اُسی وکٹ پر بلے بازوں نے ابتدائی تین اننگز میں چھ سنچریاں بناکر میچ کو ڈرا کی جانب لیجانے میں اہم ترین کردار ادا کیا۔

میچ کے آخری دن میزبان آسٹریلیا نے نیوزی لینڈ کو میچ جیتنے کے لیے 361 رنز کا ہدف دیا۔ مگر اِس ہدف کو حاصل کرنے کے لیے نیوزی لینڈ کے پاس محض 48 اوورز تھے جو شروع سے ہی ناممکن دکھائی دے رہا تھا اور ڈیڑھ گھنٹے کی بارش نے رہی سہی کسر بھی پوری کردی۔ جب دن کا خاتمہ ہوا تو نیوزی لینڈ نے دو وکٹوں کے نقصان پر 104 رنز بنائے تھے۔ دن ختم ہونے پر وکٹ پر روس ٹیلر 36 اور کین ولیمسن 32 رنز پر موجود تھے۔

نیوزی لینڈ کی دونوں وکٹیں کرکٹ کو خیرباد کہنے والے مچل جانسن نے لی تھیں۔

آسٹریلیا نے آخری دن کا آغاز دو وکٹوں کے نقصان پر 258 رنز سے کیا تھا، اور جب ٹیم سات وکٹوں پر 385 رنز تک پہنچی تو کپتان اسٹیو اسمتھ نے اننگ ڈیکلئیر کرنے کا اعلان کردیا، یہ وہ وقت تھا جب اسمتھ کو یقین ہوگیا تھا کہ نیوزی لینڈ کی فتح کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔

پرتھ میں کھیلے جانے والا یہ میچ اِس لیے بھی تاریخی اعتبار سے یادگار میچ بن گیا ہے کہ اِس میچ میں 1672 رنز بنائے گئے جو اب تک واکا کے میدان میں کسی ایک میچ میں نہیں بن سکے۔

ٹاس جیت کر اسٹیو اسمتھ نے پہلے بلے بازی کا فیصلہ کیا اور ڈیوڈ وارنر اور عثمان خواجہ نے دوسری وکٹ کے لیے 302 رنز کی شراکت داری قائم کرکے فیصلے کو بالکل ٹھیک ثابت کیا۔ وارنر نے 253 کی شاندار اننگ کھیلی جبکہ عثمان خواجہ نے 121 رنز بنائے۔  اِس شراکت داری کے سبب آسٹریلیا نے نو وکٹوں کے نقصان پر 559 رنز بنائے۔

اِتنے بڑے اسکور کے بعد خدشہ تھا کہ نیوزی لینڈ کا حال اِس میچ میں بھی وہی ہوگیا جو پہلے ٹیسٹ میں ہوا تھا۔ پھر جب 87 رنز پر دو کھلاڑی آوٹ ہوگئے تو خدشات مزید بڑھنے لگے مگر تیسری وکٹ کے لیے روس ٹیلر اور ولیمسن کی 265 رنز کی شاندار شراکت داری نے صورتحال کو بہت حد تک تبدیل کردیا تھا۔ یہ شراکت دار اُس وقت ٹوٹی جب جوش ہیزلووڈ 166 رنز بنانے والے ولیم سن کو پویلین کی راہ دکھانے میں کامیاب ہوئے۔

ولیم سن کی بلے بازی اپنی جگہ بہت اچھی تھی لیکن اگر نیوزی لینڈ کو ایک اور شکست سے بچانے کا سہرا کسی کے سر جاتا ہے تو وہ کوئی اور نہیں صرف روس ٹیلر نے جنہوں نے ساڑھے نو گھنٹے کی اننگ کھیل کر 290 رنز کی اننگ کھیلی۔

روس ٹیلر کی ناقابل یقین اننگ کی بدولت نیوزی لینڈ 65 رنز کی برتری حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی۔ یہ وہ موقع تھا کہ اگر نیوزی لینڈ کے گیند باز بھی بلے بازوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہوجاتے اور جلد از جلد آسٹریلوی بلے بازوں کو پویلین کی راہ دکھاتے تو میچ میں فتح کے امکانات بہت حد تک روشن ہوجاتے۔

آغاز بالکل ویسا ہی تھا جیسی ضرورت تھی اور آسٹریلوی دونوں اوپنرز نے 46 رنز پر آوٹ ہوگئے تھے۔ عثمان خواجہ انجری کے سبب بلے بازی کے لیے نہیں آسکے اِس لیے وکٹ پر کپتان اسمتھ اور ایڈم ووگز موجود تھے۔ نیوزی لینڈ کے لیے ضروری تھا کہ مزید ایک دو اور وکٹیں لے کر مہمان ٹیم پر دباو بڑھایا جائے  مگر اسمتھ اور ووگز نیوزی لینڈ کے گیند بازوں کے لیے لوہے کے چنے ثابت ہوئے۔ ۔ دونوں نے مل کر 224 رنز کی شراکت داری قائم کی، اسمتھ نے 138 رنز بنائے جبکہ ووگز نے 119 رنز کی اننگ کھیلی۔

اسپیڈ اور باونس کے لیے مشہور واکا کی وکٹ پر دوسرے ٹیسٹ میچ میں کل ملا کر 1672 رنز بنائے گئے جو اِس میدان پر ایک ریکارڈ ہے، اِس سے پہلے یہ ریکارڈ 1028 رنز تھا جو 2001-02 میں بنایا گیا ہے۔

ریٹائرمںٹ کا اعلان کرنے والے جانسن کو نہ صرف تماشائیوں، ساتھی کھلاڑیوں بلکہ نیوزی لینڈ کے کھلاڑیوں نے بھی شاندار طریقے سے الوداع کیا۔

بائیں ہاتھ سے گیند بازی کرنے والے جانسن نے 73 ٹیسٹ میچوں میں 313 وکٹیں حاصل کی ہیں۔ اُن سے زیادہ وکٹیں لینے والے آسٹریلیا کے صرف تین ہی گیند باز ہیں۔ جن میں 708 وکٹیں لینے والے شین وارن، 563 وکٹیں لینے والے گلین مک گراتھ اور 355 وکٹیں لینے والے ڈینس لیلی ہیں۔

واضح رہے کہ آسٹریلیا برسبین میں کھیلے جانے والے پہلے ٹیسٹ میچ میں 208 رنز سے فتحیاب ہوچکا ہے۔ جبکہ تیسرا اور تاریخی میچ 27 نومبر سے ایڈیلیڈ میں شروع ہورہا ہے۔ تیسرا میچ تاریخی اِس لیے ہوگا کہ میچ دن اور رات کی روشنی میں کھیلا جائے گا اور ایسا پہلی بار ہوگا۔