عرب امارات اور ایک روزہ، پاکستان کے لیے ایک ڈراؤنا خواب

0 1,032

متحدہ عرب امارات، دیارِ غیر میں پاکستان کرکٹ کا گھر جو گزشتہ کئی سالوں نے یہ اہم فریضہ انجام دے رہا ہے۔ اب تو پاکستان کرکٹ کی کئی یادیں دبئی، ابوظہبی اور شارجہ کے میدانوں سے وابستہ ہو گئی ہیں لیکن بدقسمتی سے یہ سب فتوحات ٹیسٹ طرز میں ہیں۔ ایک روزہ میں پاکستان کا یہاں جو حال ہے، شاید ہی کسی اور جگہ پر ہوگا، اس نے یہاں کھیلی گئی اپنی گزشتہ 10 میں سے 8 سیریز میں شکست کھائی ہے۔

پاکستان نے عرب امارات میں ٹیسٹ کامیابیاں تو بہت یادگار حاصل کی ہیں، لیکن بدقسمتی سے سب خالی میدانوں میں۔ ہزاروں کی گنجائش رکھنے والے ابوظہبی اور دبئی میدانوں میں جب کوئی دیکھنے والا نہیں ہوتا تو پاکستان نے انگلستان، جنوبی افریقہ، آسٹریلیا، سری لنکا اور نیوزی لینڈ کے خلاف ناقابل فراموش فتوحات سمیٹیں کیں لیکن جیسے ہی ایک روزہ کے مراحل آئے، میدان بھرنے لگے، اختتامِ ہفتہ کے مقابلوں میں تل دھرنے کی جگہ نہ دکھائی دی، تو شکست در شکست در شکست!

امارات میں کھیلی گئی گزشتہ 10 سیریز کا جائزہ لیں تو یہ افسوسناک حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ اگر پاکستان ایک روزہ کی عالمی درجہ بندی میں آٹھویں یا نویں نمبر پر ہے تو کیوں ہے۔ 2009ء میں آسٹریلیا کے خلاف سیریز کو دیکھیں تو وہ ہمیں جاری پاک-انگلستان سیریز سے مختلف نہیں دکھائی دیتی۔ تب پاکستان نے پہلا مقابلہ سنسنی خیز معرکہ آرائی کے چار وکٹوں سے جیتا تھا لیکن اس کے بعد تین میچز بری طرح ہارے۔ یہاں تک آخری مقابلے میں 7 وکٹوں کی آسان کامیابی بھی اس کے کام نہ آئی کیونکہ سیریز ہاتھ سے جاچکی تھی۔ پھر اُسی سال نیوزی لینڈ کے خلاف فیصلہ کن مقابلے میں بدترین کارکردگی کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان محض 212 رنز کا ہدف حاصل نہ کرسکا۔ یہ وہی مقابلہ تھا جہاں پاکستان 101 رنز پر9 وکٹیں گنوا بیٹھا تھا اور آخری وکٹ پر سعید اجمل اور محمد عامر کی 101 رنز کی شراکت داری نے پاکستان کو کامیابی کی دہلیز تک پہنچا دیا تھا لیکن دوچار ہاتھ جب لب بام رہ گیا۔ پاکستان صرف 7 رنز سے ہار گیا اور یوں مسلسل دوسری سیریز شکست نصیب میں لکھی گئی۔

پھر 2010ء کا ہنگامہ خیز سال آیا، اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل نے پاکستان کرکٹ کی چولیں ہلا کر رکھ دیں اور اس کے بعد پاکستان کو اپنی پہلی 'ہوم سیریز' جنوبی افریقہ کے خلاف کھیلنا تھی۔ 2010ء کے انہی ایام میں پاکستان نے ایک بہت ہی دلچسپ اور یادگار سیریز کھیلی۔ گو کہ پاکستان کو پہلے مقابلے میں بری طرح شکست ہوئی لیکن دوسرا اور چوتھا ایک روزہ محض محض ایک، ایک وکٹ سے جیتا جبکہ تیسرے ایک روزہ میں جنوبی افریقہ نے صرف دو رنز سے کامیابی حاصل کی۔ ان تین انتہائی دلچسپ معرکوں کے بعد جب فیصلہ کن مقابلہ آیا تو پاکستان جنوبی افریقہ کے 317 رنز کا جواب نہ دے سکا اور یوں 57 رنز سے شکست کھا کر ایک اور سیریز حریف کو بخش دی۔

مسلسل تین سیریز ہارنے کے بعد پاکستان کو 2011ءمیں یہاں کامیابی نصیب ہوئی جب سری لنکا کے خلاف قومی ٹیم نے چار-ایک سے سیریز جیتی۔ لیکن اگلے ہی سال انگلستان کے خلاف ٹیسٹ سیریز میں تاریخی کلین سویپ کے بعد ملنے والا اعتماد بھی اسے ایک روزہ میں نہ جتوا سکا بلکہ چار-صفر کی بدترین شکست ہوئی۔ اس کے ساتھ ہی محسن خان کی کپتانی اور مصباح الحق کی ٹی ٹوئنٹی قیادت بھی چلی گئی۔ اُسی سال آسٹریلیا کے خلاف تین مقابلوں کی ایک روزہ سیریز بھی دو-ایک سے ہارا۔ یہاں مقابلے تو دلچسپ ہوئے لیکن کامیابی محض دوسرے ایک روزہ میں ملی جو سیریز کا نتیجہ اپنے حق میں کرنے کے لیے ناکافی تھی۔

2013ء میں جنوبی افریقہ کے خلاف سیریز میں ایک اور مایوس کن شکست پاکستان کے نصیب میں لکھی ہوئی تھی۔ پہلے مقابلے میں صرف ایک رن سے شکست کھانے کے بعد پاکستان نے دبئی میں دوسرا ایک روزہ 66 رنز سے جیتا لیکن اگلے تینوں میچز میں جنوبی افریقہ کے سامنے جم نہ پایا اور چار-ایک کے واضح فرق سے شکست کھائی۔

Mohammad-Hafeez

عرصے بعد 2013ء کے اواخر میں پاکستان کو سری لنکا ہی کے خلاف یہاں اپنی دوسری سیریز جیتنے کو ملی۔ پاکستان نے پہلا مقابلہ 322 رنز بنانے کے باوجود صرف 11 رنز سے جیت پایا جبکہ دوسرے میں سری لنکا نے 285 رنز کا ہدف 8 وکٹوں کے نقصان پر پورا کیا۔ تیسرے اور چوتھے مقابلوں میں پاکستان نے واضح کامیابیاں حاصل کرکے سیریز جیتی اور سری لنکا کے لیے آخری ون ڈے میں کامیابی بھی کوئی فرق پیدا نہ کرسکی۔ یہ وہ آخری موقع تھا جب پاکستان نے متحدہ عرب امارات میں کوئی ایک روزہ سیریز جیتی ہو۔ اس کے بعد سے اب تک آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے خلاف ایک، ایک مرتبہ سیریز کھیل چکا ہے لیکن شکست دامن سے چمٹی رہی۔

آسٹریلیا کے خلاف 2014ء کی سیریز کا سب سے مایوس کن لمحہ آخری ایک روزہ میں تھا جب دو-صفر کی شکست کے بعد پاکستان کو کلین سویپ کی ہزیمت سے بچنا تھا اور وہ باآسانی آخری اوور میں درکار دو رنز بنا کر یہ ہدف حاصل کرسکتا تھا۔ لیکن گلین میکس ویل جیسے جزوقتی گیندباز کے سامنے بھی پاکستان ایک رن تک نہ بنا سکا اور یوں محض ایک رن سے شکست کھا کر آسٹریلیا کو تین-صفر سے کامیا ب کردیا۔

پاکستان نے متحدہ عرب امارات میں آخری ایک روزہ سیریز گزشتہ سال کے اواخر میں نیوزی لینڈ کے خلاف کھیلی تھی۔ ابتدائی تین مقابلوں کے بعد دو-ایک کی برتری بھی حاصل تھی لیکن باقی دونوں میچز میں پاکستان کو شکست ہوئی اوریوں ایک اور ہزیمت سے دوچار ہوا۔

پاکستان کا ہرگز متحدہ عرب امارات میں ایک روزہ ریکارڈ اتنا برا نہيں تھا۔ ان 10 سیریز سے قبل پاکستان نے یہاں کھیلے گئے آخری 11 ٹورنامنٹس اور باہمی سیریز میں صرف ایک مرتبہ شکست کھائی تھی۔ لیکن اب انگلستان کے خلاف چار مقابلوں کی سیریز میں بھی پاکستان برتری حاصل کرنے کے باوجود اب شکست کے دہانے پر ہے۔ سیریز جیتنا تو اب بھی ممکن نہیں کہ چار مقابلوں کی سیریز دو-ایک سے انگلستان کے حق میں ہے لیکن شکست سے بچنے کے لیے اسے لازمی کامیابی درکار ہے۔ اگر ایسا نہ ہوسکا تو ہوسکتا ہے کہ 2012ء کی تاریخ دہرا دی جائے یعنی کوچ اور کپتان کے لیے مشکل وقت آ جائے۔

گزشتہ چھ سال میں پاکستان کی متحدہ عرب امارات میں ایک روزہ کارکردگی

بمقابلہ کل مقابلے جیتے ہارے بہترین اسکور کم ترین اسکور سیریز فاتح تاریخ
 پاکستان  آسٹریلیا 5 2 3 254 171  آسٹریلیا اپریل 2009ء
 پاکستان  نیوزی لینڈ 3 1 2 287 204  نیوزی لینڈ نومبر 2009ء
 پاکستان  جنوبی افریقہ 5 2 3 289 203  جنوبی افریقہ اکتوبر 2010ء
 پاکستان  سری لنکا 4 4 1 257 200  پاکستان نومبر 2011ء
 پاکستان  انگلستان 4 0 4 237 130  انگلستان فروری 2012ء
 پاکستان  آسٹریلیا 3 1 2 249 198  آسٹریلیا اگست 2012ء
 پاکستان  جنوبی افریقہ 5 1 4 238 151  جنوبی افریقہ اکتوبر 2013ء
 پاکستان  سری لنکا 5 3 2 326 232  پاکستان دسمبر 2013ء
 پاکستان  آسٹریلیا 3 0 3 230 162  آسٹریلیا اکتوبر 2014ء
 پاکستان  نیوزی لینڈ 5 2 3 364 207  نیوزی لینڈ دسمبر 2014ء