عرب امارات میں پاکستان کو ایک اور شکست

0 1,304

کپتان کوئی بھی ہو، ٹیم میں چاہے کوئی سپر اسٹار کھلاڑی ہی کیوں نہ شامل ہو، مگر ایک روزہ سیریز ہو اور متحدہ عرب امارات ہو، گزشتہ 6 سالوں میں پاکستان کے لیے نتیجہ زیادہ تر ایک ہی رہا ہے، شکست۔ اس عرصے میں پاکستان نے عرب امارات میں 10 ایک روزہ سیریز کھیلیں اور صرف دو جیتیں اور اس خراب ریکارڈ کے بعد امید، اور خواہش بھی، یہی تھی کہ پاکستان انگلستان کو شکست دے اور ریکارڈ میں بہتری لائے مگر چوتھے اور آخری ایک روزہ میں 84 رنز کی شکست کے ساتھ ایک اور سیریز ہاتھ سے نکل گئی۔

دبئی میں ہونے والے آخری ایک روزہ میں انگلستان کے کپتان ایون مورگن نے ٹاس جیت کر پہلے بلے بازی کا فیصلہ کیا اور اس کے بعد انہوں نے جو کچھ پاکستانی گیندبازوں کے ساتھ کیا، اس سے یہ فیصلہ صد فی صد درست ثابت ہوا۔ انگلستان نے 50 اوورز میں 356 رنز کا پہاڑ جیسا ہدف پاکستان کے سامنے رکھ دیا۔ اس کو دیکھتے ہی اندازہ ہوگیا تھا کہ پاکستان شاید مقابلہ نہ جیت سکے۔ یہاں تو 250 رنز کے ہدف پر شاذونادر ہی کامیابی ملتی ہے، یہ تو پھر ساڑھے تین سو سے زیادہ رنز ہیں۔ مگر آغاز میں کپتان اظہر علی کے ارادوں نے امید کی کرن دکھائی۔ پہلی وکٹ پر انہوں نے احمد شہزاد کے ساتھ برق رفتار 45 رنز کا آغاز فراہم کیا مگر احمد شہزاد کی چھکا مارنے کی ناکام کوشش کے بعد معاملہ آہستہ آہستہ ہاتھ سے نکلتا چلا گیا۔ گو کہ کپتان گھبرائے نہیں اور جارحانہ بلے بازی جاری رکھی مگر ایک غلطی نے ان کی اننگز کا خاتمہ کردیا۔ دو چھکوں اور 6 چوکوں کی مدد سے 32 گیندوں پر 44 رنز کے ساتھ اظہر علی میدان سے اس طرح لوٹے جیسے منوں بوجھ ان کے اوپر ہو۔

دو وکٹیں گرنے کے بعد محمد حفیظ اور بابر اعظم نے رنز کی رفتار نہ تھمنے دی۔ دونوں نے 65 رنز کی ساجھے داری قائم کی اور یہ مزید بڑھ بھی سکتی تھی اگر محمد حفیظ رن آؤٹ کی عادت سے مجبور ہوکر وکٹ نہ دیتے۔ گزشتہ مقابلے میں انہوں نے اظہر علی کو رن آؤٹ کروایا اور اب اس میچ میں خود شکار بنے۔ 36 گیندوں پر 37 رنز بنانے کے بعد جب وہ آؤٹ ہوئے تو پاکستان 18 اوورز میں 129 رنز بنا چکا تھا۔

اس مرحلے پر وکٹیں بچاتے ہوئے ہدف کی جانب سفر جاری رکھنے کی ضرورت تھی لیکن غیر ذمہ دارانہ مزاج نے ایسا نہ ہونے دیا۔ 47 رنز کے اضافے کے عادل رشید نے بابر اعظم کی وکٹ لے کر پاکستان کی مشکلات میں مزید اضافہ کردیا اور ابھی کچھ ہی دری گزری تھی کہ محمد رضوان بھی چھکا مارنے کی کوشش میں پویلین لوٹ گئے۔ یوں 194 رنز پر آدھی ٹیم آؤٹ ہو چکی تھی۔ کامیابی کے امکانات معدوم ہوتے چلے گئے اور باقی پانچ کھلاڑیوں نے 77 رنز کے بعد ہتھیار ڈال دیے۔ یوں پاکستان 84 رنز سے شکست کھا گیا اور انگلستان نے سیریز تین-ایک سے جیت لی۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان کی اننگز کے تقریباً 10 اوورز ابھی باقی تھے، یعنی وکٹیں ہوتی تو 85 رنز بنانا اتنا بڑا مسئلہ نہ ہوتا۔ آخر انگلستان نے بھی آخری 10 اوورز میں 129 رنز بنائے تھے۔

قبل ازیں، انگلستان کی بلے بازی نے میدان میں موجود ہزاروں پاکستانی تماشائیوں کو بھی تعریف پر مجبور کردیا۔ خاص طور پر قبل از وقت بھیجے گئے جوس بٹلر نے، جنہوں نے انگلستان کی تاریخ ترین ایک روزہ سنچری کا اپنا ہی بنایا گیا ریکارڈ توڑا۔ لیکن اس سے پہلے اوپنرز ایلکس ہیلز اور جیسن روئے نے 54 رنز کا آغاز دیا۔ ہیلز کے محمد عرفان کے ہاتھوں آؤٹ ہونے کے بعد روئے اور جو روٹ نے 140 رنز کی بڑی شراکت داری جوڑی اور اگلے بلے بازوں کو کھل کر کھیلنے کا موقع اور حوصلہ دیا۔ یاسر شاہ نے پہلی ایک روزہ سنچری بنانے والے روئے کو آؤٹ کیا تو مورگن نے خود آنے کے بجائے بٹلر کو میدان میں اتارا۔

پاکستان نے مقابلے پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کی کوشش کی اور روئے کے بعد چند ہی اوورز میں 71 رنز بنانے والے روٹ اور پھر کپتان ایون مورگن کی وکٹیں بھی حاصل کرلیں لیکن انگلستان 40 اوورز میں 227 رنز بناچکا تھا۔ اگر پاکستان محدود کرتا اور وکٹیں لیتا تو انگلستان ہرگز وہاں نہ پہنچتا، جہاں وہ آخر میں پہنچا لیکن شاباش ہے بٹلر کو۔ جنہوں نے پاکستان کی تمام تر خوش فہمی کا خاتمہ کردیا۔ صرف 41 گیندوں پر سنچری بنا کر انہوں نے میچ کا نقشہ ہی تبدیل کردیا۔ 8چھکوں اور 10 چوکوں سے مزین اننگز میں وہ 52 گیندوں پر 116 رنز بنانے میں کامیاب رہے اور ناقابل شکست میدان سے لوٹے۔

پاکستان کی جانب سے کوئی گیندباز قابل ذکر کارکردگی نہ دکھاسکا، صرف اظہر علی نے 5 اوورز میں 26 رنز دے کر دو وکٹیں حاصل کیں اور کچھ بہتر رہے۔ دو وکٹیں عرفان کو بھی ملیں لیکن ان کے 10 اوورز میں 64 رنز پڑے۔ انور علی نے 9 اوورز میں 75 اور وہاب ریاض نے 70 رنز کھائے اور نامراد رہے۔ شعیب ملک کے 7 اوورز میں 59 رنز پڑے اور انہیں بھی کوئی وکٹ نہ ملی۔ وکٹ لینے والے تیسرے باؤلر یاسر شاہ تھے، جنہوں نے ایک کھلاڑی کو آؤٹ کیا لیکن 9 اوورز میں 70 رنز کھا کر۔

یادگار اننگز کھیلنے پر بٹلر کو میچ اور سیریز کے بہترین کھلاڑی کے اعزازات دیے گئے۔

پاکستان کے لیے ٹیسٹ میں شاندار کامیابی کے بعد ایک روزہ میں شکست کی یہ داستان کوئی نئی نہیں ہے۔ 2012ء میں تو پاکستان نے انگلینڈ کو تین ٹیسٹ کی سیریز میں وائٹ واش کی ہزیمت سے دوچار کیا تھا لیکن اس کے فوراً بعد چار ون ڈے میچز کی سیریز کے سب مقابلے ہار گیا۔ بہرحال، اب انتظار ہے ٹی ٹوئنٹی مرحلے کا کہ جہاں تین میچز کھیلے جائیں اور پہلا 26 نومبر کو دبئی کے اسی خوبصورت اسٹیڈیم میں ہوگا۔

Jos-Buttler