”انوکھا لاڈلا“ لاہور میں کھیلنے کو تیار، لیکن امارات نہیں آئیں گے

1 1,147

گزشتہ سال جب 'بگ تھری' کے معاملے پر پاکستان کی حمایت درکار تھی تو بھارت باہمی تعلقات کی بحالی کے دیرینہ مسئلے کو بھی حل کرنے پر آمادہ دکھائی دیتا تھا۔ یہاں تک کہ آئندہ 8 سالوں میں پاکستان کے ساتھ چھ باہمی سیریز کھیلنے کا عہد بھی کر ڈالا۔ لیکن 'غضب کیا ترے وعدے پر اعتبار کیا '، اب جب وقت آن پہنچا ہے تو بہانے تراش رہا ہے اور کہہ رہا ہے کہ اسی صورت میں کھیل سکتے ہیں، جب پاکستان بھارت کا دورہ کرے۔ جس کا سب کو انتظار تھا، وہ تاریخی سیریز اب خطرے سے دوچار ہے۔

اس صورت حال میں بھارتی کرکٹ بورڈ (بی سی سی آئی) کے اہم عہدیدار راجیو شکلا کہہ رہے ہیں، بلکہ پاکستان کرکٹ بورڈ کو تجویز دے رہے ہیں کہ، متحدہ عرب امارات کو چھوڑیں پاکستان کے میدانوں کو محفوظ بنائیں تاکہ بھارت لاہور میں کھیلے۔ نجانے کیوں ایسا لگ رہا ہے کہ بھارت اب متحدہ عرب امارات کے نام سے ہی بدک رہا ہے۔ حیرت ہے، ابھی تو 2014ء کی انڈین پریمیئر لیگ کے آدھے مقابلے امارات کے اِنہی میدانوں پر ہوئے ہیں۔ کوئی سال ڈیڑھ ہی گزرا ہے اور ان میدانوں سے اتنی بیزاری؟

اپنی ایک حالیہ گفتگو میں 'مخلصانہ' مشورے دیتے ہوئے انڈین پریمیئر لیگ کے چیئرمین راجیو شکلا کہتے ہیں کہ "پاکستان متحدہ عرب امارات میں کھیلتا رہا، تو اس کی کرکٹ کو نقصان پہنچے گا اس لیے توجہ ملک میں کرکٹ واپس لانے پر ہونی چاہیے۔ لاہور باآسانی ایک محفوظ مقام بن سکتا ہے۔ اسٹیڈیم کے قریب ایک ہوٹل ہو، سیکورٹی سخت ہو تو بھارت کو لاہور میں کھیلنے پر کوئی اعتراض نہ ہوگا۔" واقعی، پاکستان کو تو اندازہ ہی نہیں تھا کہ یہ کام تو اتنا آسان ہے، بلاوجہ اتنے سالوں سے بنگلہ دیش جیسے ملک کی بھی منتیں کرنا پڑیں۔ بہرحال، راجیو شکلا مزید کہتے ہیں کہ اگر پاکستان آئی سی سی کو سیکورٹی کی ضمانت دینے میں کامیاب ہو جائے تو بھارت لاہور آنے کے لیے تیار ہے اور دیگر ممالک کو بھی کوئی اعتراض نہ ہوگا۔ زمبابوے کے دورۂ لاہور سے جو تاثر پیدا ہوا ہے، اسے مزید مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔

ان باتوں کے بعد جب اصل اور کام کی بات آئی تو راجیو کا جواب دیکھیں، گزشتہ سال دونوں ممالک کے درمیان مفاہمت کی جس یادداشت پر دستخط ہوئے تھے، اس کے بارے میں کہتے ہیں کہ اس وقت آئی سی سی اور بی سی سی آئی کی قیادت کسی اور کے ہاتھ میں تھی، اب موجودہ صدر چاہتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کے باہمی مقابلے ایک دوسرے کے ممالک ہی میں کھیلے جائیں۔ "ہمارا کہنا ہے کہ اس مرتبہ آپ بھارت آ جائیں، ہم ہوم سیریز کے نقصان کا ازالہ کرنے کو بھی تیار ہیں، شرکت پر ملنے والی فیس بھی بڑھا دیں گے، پھر جب پاکستان میں حالات بہتر ہوں گے تو ہم وہاں جائیں گے اور ایک، دو سیریز کھیلیں گے۔" یعنی نہ نو من تیل ہوگا، نہ رادھا ناچے گی!

بھارت میں پاکستان کے کھلاڑی کتنے محفوظ ہوں گے جبکہ ابھی پاک-بھارت کرکٹ حکام کے درمیان ملاقات انتہا پسند شیو سینا کے مظاہرے کی نذر ہو چکی ہے، اس پر راجیو شکلا کہتے ہیں کہ میرا نہیں خیال کہ یہ کوئی بڑا مسئلہ ہے، اسے انا کا مسئلہ کیوں بنایا جائے اور دبئی ہی میں کھیلنے پر کیوں زور دیا جائے۔

کم از کم راجیو شکلا کے بیانات سے تو واضح ہے کہ بھارت پاکستان کے خلاف کسی تیسرے مقام پر بھی کھیلنے کو راضی نہیں ہوگا۔ اگر کھیلا بھی تو اپنی سرزمین پر کھیلے گا تاکہ باہمی سیریز کے ہونے والے تمام تر فوائد خود سمیٹے یا ان کا بڑا حصہ ہڑپ کر جائے۔ کیا پاکستان کو وعدہ شکنی اور معاہدے کی صریح خلاف ورزی کے بعد بھی بھارت جانا چاہیے؟ اصول تو یہی کہتا ہے کہ صاف انکار کردینا چاہیے۔