کرکٹ میں ایمانداری کی عظیم مثالیں

4 1,258

ایک عام فرد اور ایک مثالی شخص میں کیا فرق ہوتا ہے؟ چند لوگوں کے خیال میں مثالی بننے کے لیے اپنے اپنے شعبے میں غیر معمولی کارکردگی دکھانا پڑتی ہے جبکہ بعض کا خیال ہے کہ مثالی بننے کے لیے ایسے کام کی ضرورت ہوتی ہے جو دوسروں کے لیے بھی قابلِ تقلید سمجھے جائیں۔ دیکھا جائے تو دونوں باتیں بالکل ٹھیک نظر آتی ہیں لیکن مثالی بننے کے لیے ایک اور صلاحیت ہے ہونا ناگزیر ہے، وہ ہے ایمانداری۔ یعنی آپ جس شعبے میں بھی ہیں بھرپور محنت اور ایمانداری سے کام کریں اور جو بھی ایسا کرے گا اس کو کامیابی کی منازل تک پہنچنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔

زندگی کا یہی اصول مختلف شعبوں کے ساتھ ساتھ کرکٹ پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ اگر اچھی کارکردگی کسی کو بڑے کھلاڑیوں کی فہرست میں شامل کرتی ہے تو ایمانداری اسے عظیم اور مثالی کردار بناتی ہے۔ یعنی ایسا کھلاڑی جسے لوگ ہمیشہ اچھے نام سے یاد کریں۔

لیکن کیونکہ مقابلے کی فضا میں جیت کی اہمیت سب سے زیادہ ہوتی ہے اس لیے کرکٹ کی تاریخ میں ایسی مثالی ایمانداری ہمیں خال خال ہی دکھتی ہے۔ مگر پھر بھی 10 ایسے واقعات ضرور اکٹھے کرلیے ہیں جن کی بنیاد پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ بڑے کھلاڑیوں کا بڑا فیصلہ انہیں ہمیشہ کے لیے بڑا بنا دیتا ہے۔ آئیے ایک، ایک کرکے نظر ڈالتے ہیں۔

ایڈم گلکرسٹ

Adam-Gilchrist

گو کہ ایڈم گلکرسٹ کا تعلق آسٹریلیا سے تھا، وہ جارح مزاج بھی تھے اور اپنے زمانے کے منہ پھٹ اور بدمزاج ترین کھلاڑیوں کے ساتھ کھیلتے تھے لیکن نہ صرف کارکردگی بلکہ ایمانداری کے معاملے بھی "گلی" کو مثالی کہا جا سکتا ہے۔

گلکرسٹ وکٹ کے پیچھے بھی اور وکٹ سے آگے یعنی بلے بازی میں بھی آسٹریلیا کے اہم ستون تھے۔ پھر معاملہ عالمی کپ کا ہو، وہاں بھی سیمی فائنل کا تو چھے بھلے ایمان بیچ دیتے ہیں۔ 2003ء میں آسٹریلیا اور سری لنکا ایک ایسے ہی مقابلے میں آمنے سامنے تھے۔ اس اہم مقابلے میں گلکرسٹ 20 گیندوں پر 22 رنز بنا چکے تھے اور بھرپور فارم میں نظر آ رہے تھے کہ ارونڈا ڈی سلوا کی گیند ان کے بلے کا معمولی سا کنارہ لے گئے اور وکٹ کیپر کمار سنگاکارا نے کیچ پکڑ لیا۔ سری لنکا کے کھلاڑیوں کی زوردار اپیل کے باوجود امپائر روڈی کوئرٹزن ٹس سے مس نہ ہوئے۔ یہ بہترین موقع تھا، ایک نئی زندگی ملنے کے بعد ایک شاندار اننگز کھیل کر اپنا نام تاریخ میں درج کروانے کا لیکن گلکرسٹ کے ضمیر نے یہ گوارا نہ کیا۔ انہوں نے امپائر کے ناٹ آؤٹ دینے کے باوجود بلّا بغل میں دبایا اور پویلین کی جانب روانہ ہوگئے۔ کیوں؟ کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ گیند بلّے کو چھوتی ہوئی گئی ہے۔ شاید ان کا یہی فیصلہ خدا کو بھی پسند آ گیا۔ آسٹریلیا مقابلہ جیتا اور پھر فائنل میں گلکرسٹ نے 57 رنز کی طوفانی اننگز کھیل کر آسٹریلیا کو ایک مرتبہ پھر عالمی چیمپئن بننے کے لیے بنیاد فراہم کی۔


سچن تنڈولکر

Sachin-Tendulkar-Ravi-Rampaul

سچن کے بڑے کارناموں سے بھلا کون واقف نہیں؟ وہ نئے آنے والے کھلاڑیوں کے لیے ہمیشہ مثالی کردار رہیں گے۔ طویل کیریئر میں کبھی کوئی ایسا مرحلہ نہ آنے دیا جو ان کے لیے شرمندگی کا باعث بنا ہو۔ ان کے سنہری کیریئر کی ایسی ہی ایک مثال عالمی کپ 2011ء کی ہے جب بھارت اور ویسٹ انڈیز کا مقابلہ کھیلا گیا۔ تنڈولکر اپنی بہترین فارم تھے اور مخالف کے لیے خطرے کی علامت بنے ہوئے تھے۔ لیکن میچ کے پہلے ہی اوور میں روی رامپال کی ایک اچھی گیند ان کے دستانوں کو چھوتی ہوئی وکٹ کیپر کے ہاتھوں میں چلی گئی۔ فلک شگاف اپیل کی گئی اور امپائر ابھی گومگو کی کیفیت میں ہی تھے اور محسوس ہوا کہ آؤٹ نہیں دیں گے کہ تنڈولکر نے ان کی مشکل آسان کردی۔ انہوں نے کریز چھوڑ دیں اور میدان سے واپس آ گئے۔ یہ بتانے کی شاید ضرورت نہیں ہے کہ بھارت نے بعد میں ورلڈ کپ بھی جیتا۔


مہندر سنگھ دھونی

Ian-Bell

گیندبازی کرنے والی ٹیم کی پہلی کوشش یہ ہوتی ہے کہ کسی نہ کسی طرح مخالف بلے بازوں کو باہر کا راستہ دکھائیں۔ عالمی کپ 2011ء جیتنے کے بعد جب بھارت انگلستان کے دورے پر پہنچا تو یہ بھارت کے لیے خود کو حقیقی چیمپئن ثابت کرنے کا وقت تھا۔ دوسرے ٹیسٹ کے دوران جب این بیل 137 رنز پر کھیل رہے تھے تو چائے کے وقفے سے قبل آخری گیند پر اسکوائر لیگ پر کھڑے پروین کمار نے چوکا روکنے کی عجیب و غریب کوشش کی۔ اس دوران بلے باز تین رنز دوڑ چکے تھے اور ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ گیند باؤنڈری لائن کو چھو چکی ہے۔ اسی کیفیت میں بیل نے تیسرا رن مکمل کیا اور اس کے بعد چلتے ہوئے دوسرے کنارے پر موجود کھلاڑی مورگن کے پاس پہنچ گئے کہ بس اب وقفہ ہو جائے گا۔ لیکن بھارت کے کھلاڑیوں نے دوسرے کنارے پر وکٹیں بکھیر کر امپائر سے اپیل کردی۔ ری پلے دیکھنے کے بعد تیسرے امپائر نے بیل کے خلاف فیصلہ دے دیا اور یوں تماشائیوں کی نعرے بازی کے دوران بھارتی ٹیم میدان سے باہر آئی۔

وقفے کے دوران انگلستان کی ٹیم انتظامیہ نے دھونی سے رابطہ کیا اور کہا کہ وہ فیصلے پر نظر ثانی کریں۔ جب وقفہ ختم ہوا اور تماشائیوں نے ایک مرتبہ پھر بھارت کے کھلاڑیوں کو آڑے ہاتھوں لینا شروع کردیا لیکن عین اسی وقت وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ بیل میدان میں واپس آ رہے ہیں۔ دھونی نے ان کے آؤٹ کو کھیل کی روح کے منافی قرار دیتے ہوئے اپنی اپیل واپس لے لی تھی۔


گنڈاپا وشوناتھ

Gundappa-Viswanath-Bob-Taylor

یہ 1980ء کا واقعہ تھا جب انگلستان واحد ٹیسٹ کھیلنے کے لیے بھارت کے دورے پر آیا تھا۔ اس مقابلے میں ایک نئی تاریخ رقم ہوئی اور اصولوں کی پاسداری کی ایک عظیم مثال بھی قائم ہوئی۔ انگلستان کے وکٹ کیپر باب ٹیلر بلے بازی کر رہے تھے جب کپل دیو کی گیند ان کے بلے کو چھوتے ہوئے وکٹ کیپر کے پاس چلی گئی۔ اپیل کے بعد امپائر نے انہیں آؤٹ قرار دے دیا لیکن ٹیلر کو اس فیصلے پر سخت تحفظات تھے اور انہوں نے وکٹ چھوڑنے سے انکار کردیا۔ اس صورت حال میں بھارتی کپتان وشو ناتھ نے ٹیلر کے پاس جانے کا فیصلہ کیا اور ان سے پوچھا کہ کیا گیند بلے کو لگی ہے؟ ٹیلر نے نفی میں جواب دیا۔ وشو ناتھ نے یہاں تاریخی قدم اٹھایا اور امپائر سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنا فیصلہ واپس لیں۔ ٹیلر کو نئی زندگی ملی لیکن دنیا آج وشو ناتھ کو اچھے الفاظ میں یاد کرتی ہے۔


اینڈریو اسٹراس

Andrew-Strauss

اینڈریو اسٹراس انگلستان کے ایک باوقار کپتان تھے۔ ان کے اعلیٰ کردار کی ایک مثال 2009ء میں جنوبی افریقہ کے میدانوں میں کھیلی گئی چیمپئنز ٹرافی میں نظر آئی۔ سری لنکا کے خلاف مقابلے میں جب بلے باز اینجلو میتھیوز نے شاٹ کھیل کر رن دوڑنے کی کوشش کی تو اس دوران ان گیندباز گراہم اونیئنز سے ان کی ٹکر ہوگئی۔ اس کا وکٹ کیپر میٹ پرائیر نے فائدہ اٹھایا اور میتھیوز کو رن آؤٹ کر دیا۔

شروع میں تو میتھیوز نے اس حرکت پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا مگر آہستہ آہستہ پویلین کی جانب واپس آنا شروع کردیا۔ اسی دوران اسٹراس امپائرز کے پاس گئے اور دونوں کے مشترکہ فیصلے کی بنیاد پر میتھیوز کو دوبارہ واپس بلایا لیا گیا۔ تماشائیوں کی جانب سے اسٹراس کے اس فیصلے کو خوب سراہا گیا اور بھرپور داد دی گئی۔


ڈینیل ویٹوری

Daniel-Vettori

نیوزی لینڈ کے بے داغ کھلاڑی، ڈینیل ویٹوری ہمیشہ کرکٹ کے اچھے اصولوں کو پروان چڑھانے کے حامی رہے ہیں بلکہ خود اس کی عملی مثال بھی پیش کی۔ 2011ء میں زمبابوے کے خلاف ٹیسٹ سیریز کے دوران وہ ریگس چکابوا کو گیند کر رہے تھے۔ انہوں نے شاٹ کھیلا اور رن لینے کی کوشش میں دوسرے کنارے پر موجود بلے باز میلکم والر ویٹوری سے ٹکرا گئے اور رن آؤٹ ہوگئے۔ نیوزی لینڈ کے کھلاڑی تو وکٹ ملنے پر مسرت کا اظہار کر رہے تھے لیکن وٹوری نے مداخلت کی اور امپائر کو بتایا کہ ان کی ٹکر کی وجہ سے یہ معاملہ ہوا اس لیے بلے باز کو ناٹ آؤٹ قرار دیا جائے۔ ویٹوری کے اس بڑے فیصلے کی وجہ سے انہیں 2012ء میں بین الاقوامی کرکٹ کونسل کی جانب سے 'اسپرٹ آف کرکٹ ایوارڈ' بھی دیا گیا۔


مارون اتاپتو

Marvan-Atapattu

2004ء میں آسٹریلیا اور سری لنکا کے مابین ایک روزہ سیریز کے ایک مقابلے میں کمار دھرماسینا کی گیند پر اینڈریو سائمنڈز نے شاٹ مارنے کی ناکام کوشش کی۔ گیند نے بلے کا کنارہ لیا، پیڈ پر لگی اور سری لنکا کے فیلڈرز کی پرزور اپیل پر امپائر پیٹر مینوئیل نے زیادہ وقت لیے بغیر انگلی ہوا میں اٹھا دی۔ سری لنکا کو بڑی کامیابی مل گئی اور ابھی کامیابی کا جشن منایا جا رہا تھا کہ کپتان اتاپتو نے امپائر سے رجوع کیا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ گیند پیڈ تک پہنچنے سے پہلے بلّے کو چھوتے ہوئے گئی ہے۔ انہوں نے امپائر کو صورت حال سے آگاہ کیا اور پیٹر مینوئل اور ساتھی امپائر بلی باؤڈن نے سائمنڈز کو دوبارہ بلے بازی کے لیے بلا لیا۔


کورٹنی واش

Courtney-Walsh

عام طور پر تیز گیندبازوں کے بارے میں سمجھا جاتا ہے کہ وہ غصے کے تیز ہوتے ہیں اور وکٹ لینے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے لیکن 1987ء کے عالمی کپ میں ویسٹ انڈیز کے کورٹنی واش نے ان تمام مفروضات کو غلط ثابت کیا۔

پاکستان کے خلاف مقابلے میں جہاں ایک گیند پر پاکستان کو صرف دو رنز کی ضرورت تھی۔ کورٹنی واش عبد القادر کو گیند پھینک رہے تھے۔ چونکہ ایک گیند پر دو رنز چاہیے تھے اس لیے دوسرے کنارے پر موجود سلیم جعفر کی کوشش تھی کہ کم از کم ایک رن دوڑ کر میچ برابر ہی کردیا جائے۔ اس مقصد کے لیے وہ گیند پھینکے جانے سے پہلے ہی دوڑ گئے۔ اگر واش چاہتے تو سلیم جعفر کو آؤٹ کر سکتے تھے اور اس صورت میں ویسٹ انڈیز میچ بھی جیت جاتا کیونکہ یہ پاکستان کی آخری وکٹ تھی۔ لیکن انہوں نے اصولوں کی پاسداری کی اور سلیم جعفر کو خبردار کرنے پر ہی اکتفا کیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ آخری گیند پر عبد القادر نے ہدف حاصل کرلیا اور پاکستان نے کامیابی حاصل کرلی۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس کامیابی کے باوجود کروڑوں شائقین کے دل کورٹنی واش نے جیتے۔


عمران خان

imran-khan

پاکستان اور بھارت کے مقابلوں کو 'جنگ' سمجھا جاتا ہے۔ سرحد کے دونوں طرف شکست کوئی نہیں دیکھنا اور سننا چاہتا۔ یہی وجہ ہے کہ دونوں ٹیموں کے کھلاڑیوں پر پر بہت بڑا دباؤ ہوتا ہے کہ انہیں اپنے قوم کے جذبات سے بچنے کے لیے مقابلے میں کامیابی حاصل کرنی ہے۔ 1989ء میں اتنے بڑے دباؤ کے باوجود پاکستان کے کپتان عمران خان نے ایک بہت بڑا اور مشکل فیصلہ کیا اور یہی وجہ ہے کہ آج انہیں اچھے الفاظ میں یاد کیا جاتا ہے۔

یہ نوجوان وقار یونس تھے جو بھارت کے کرش سری کانت کو باؤلنگ کر رہے تھے کہ امپائر نے انہیں ایل بی ڈبلیو آؤٹ قرار دے دیا۔ سری کانت اس فیصلے پر سخت مایوس تھے اور بار ہا اپنے بلے کی جانب سے اشارہ کرتے دکھائی دیے کہ گیند بلے کو چھوتے ہوئے گئی تھی۔ مایوسی کے عالم میں وہ میدان سے واپس جا رہے تھے کہ عمران خان نے انہیں روکا اور امپائر سے درخواست کی کہ فیصلہ تبدیل کیا جائے۔ اس پر سری کانت کو دوبارہ بلے بازی کے لیے بلا لیا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اگلی ہی گیند سری کانت دوبارہ آؤٹ ہوگئے۔ وکٹ تو پاکستان کو مل ہی گئی لیکن عمران خان کی بڑے دل کی تعریف بھارت کو بھی کرنا پڑی۔


گرانٹ ایلیٹ

Grant-Elliott-Dale-Steyn

بھلا یہ دن کون بھول سکتا ہے۔ عالمی کپ 2015ء کا اہم مقابلہ یعنی سیمی فائنل کہ جہاں نیوزی لینڈ نے جنوبی افریقہ کو شکست دے کر تاریخ میں پہلی بار فائنل تک رسائی کا اعزاز حاصل کیا۔ اس پر نیوزی لینڈ کے کھلاڑی خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے جبکہ دوسری جانب بدقسمت جنوبی افریقہ کے کھلاڑی ہاتھ آئی کامیابی کو شکست میں تبدیل ہوتا دیکھنے کے بعد افسردہ تھے۔ کپتان ابراہم ڈی ولیئرز سمیت متعدد کھلاڑیوں کی آنکھوں سے آنسو چھلک رہے تھے تو آخری اوور میں ہدف کا دفاع نہ کر پانے ڈیل اسٹین شدت غم سے زمین پر لیٹے ہوئے تھے۔ یہاں میچ کے ہیرو گرانٹ ایلیٹ نے ان لمحات کا جشن منانے کے بجائے اسٹین کے غم کو مقدم جانا اور انہیں اٹھنے کے لیے اپنا ہاتھ پیش کیا۔ یہ واقعہ کرکٹ کی حالیہ تاریخ کا ایک روشن باب ہے جو ان کھلاڑیوں کی شخصیت کا ایک نرم پہلو دنیا کے سامنے لاتا ہے۔