کیا ٹیسٹ میچ ایسے ہی کھیلا جاتا ہے؟

0 1,074

جب میچ جیتنا ناممکن ہوجائے اور شکست سے بچنا بھی لازم ہو تو میچ بچانے کے لیے کس طرح بلے بازی کی جاتی ہے یہ گزشتہ روز جنوبی افریقی ٹیسٹ کپتان ہاشم آملہ اور ابراہم ڈی ویلئیرز کی ذمہ دارانہ بلے بازی نے پوری دنیا کو بتایا جنہوں نے 40 اوورز میں محض 27 رنز بنائے۔

جب چوتھے دن کا اختتام ہوا تو جنوبی افریقہ کو میچ جیتنے کے لیے مزید 409 رنز درکار تھے جبکہ اُس کی آٹھ وکٹیں باقی تھیں، واضح رہے کہ یہ ٹیسٹ سیریز کا پہلا میچ ہے جو پانچویں دن تک جاری رہا ہے۔

پہلی اننگ میں سنچری اسکور کرنے والے اجنکیا رہانے نے جب دوسری اننگ میں بھی سنچری اسکور کرلی تو بھارتی کپتان ویرات کوہلی نے اننگ کو ڈیکلئیر کرنے کا اعلان کردیا، یوں جنوبی افریقہ کو میچ جیتنے کے لیے 481 رنز کا ہدف ملا۔

یقیناً اِس ہدف کا حصول ناممکن دکھائی دے رہا تھا لیکن یہ اُس وقت مزید مشکل ہوگیا جب روی چندرا اشوین نے ڈین ایلگر کو محض چوتھے اوور میں ہی پویلین بھیج دیا، اِس وقت ٹٰیم کا اسکور پانچ تھا۔

وکٹ پر موجود ٹیمبا باووما کا ساتھ دینے کپتان ہاشم آملہ خود آئے۔ دونوں نے میچ کو بچانے کی بھرپور کوشش کی اور اگلے 38 اوورز تک وکٹ کو گرنے نہ دیا، لیکن اِن 38 اوورز میں دونوں بلے بازوں نے مشترکہ طور پر صرف 44 رنز بنائے گئے۔

یہ شراکت دار بھارت کے لیے مزید خطرات کھڑے کرتی اِس سے پہلے ہی ایک بار پھر اشوین گیند بازی کے لیے آئے اور ٹیمبا باووما کو 34 رنز پر چلتا کیا۔ اِس وقت ٹیم کا اسکور 49 اوورز میں 42 تھا۔

یقیناً یہ وہ وقت تھا پریشان حال جنوبی افریقی ٹیم مزید مشکلات کا شکار ہوگئی۔ کپتان کا ساتھ دینے ابراہم ڈی ویلئیرز آئے اور اِس وقت یہی کہا جارہا تھا کہ اگر جنوبی افریقہ کو میچ بچانا ہے تو یہ وکٹ بہت اہمیت کی حامل ہے۔

بس جنوبی افریقی ٹیم کو دونوں کھلاڑیوں سے جس توقع کی اُمید تھی دونوں نے بالکل ویسا ہی کیا اور اگلے 40 اوورز تک دونوں نے بلے بازی کی جس میں صرف 27 رنز کا اضافہ کیا گیا اور یوں چوتھے دن کے کھیل کا اختتام ہوگیا۔

اب میچ کے آخری دن جنوبی افریقی ٹیم کو میچ بچانے کے لیے 90 اوورز تک کھیلنا ہوگا اور میچ جیتنے کے لیے مزید 409 رنز بنانے ہونگے جو مشکل دکھائی دے رہا ہے، جبکہ دوسری طرف بھارت کو میچ جیتنے کے لیے آٹھ وکٹیں درکار ہیں، اگر بھارت یہ میچ بھی جیت گئی تو سیریز 0-3 سے اپنے نام کرلے گی۔

اگرچہ میچ کے چوتھے دن جنوبی افریقہ بلے بازوں نے اپنی ٹیم کو شکست سے تو بچائے رکھا مگر تماشائیوں کو بہت مایوس کیا جس کی جھلک دن بھر سوشل میڈیا پر دیکھنے کو ملی۔ اُن سے چند مثالیں مندرجہ ذیل ہیں۔

لیکن جہاں ایک طرف لوگ ہاشم آملہ پر طنز کے نشتر چلارہے تھے تو وہی دوسری طرف اُن کے اعصاب کی تعرف بھی کررہے تھے۔