”میں نہ مانوں“، امپائر سے اختلاف کی جرات کرنے والے
پاکستان ایک جمہوریت ہے اور کرکٹ کھیلنے والے بیشتر ممالک میں جمہور کی حکمرانی ہے، جس میں اختلاف کی گنجائش بھی ہے اور حق بھی، لیکن ان کا پسندیدہ کھیل کرکٹ مکمل طور پر آمرانہ رویہ رکھتا ہے، جہاں پہلا اور آخری فیصلہ امپائر کا ہوتا ہے۔ اس کے فیصلے کے خلاف ردعمل دکھانا، کندھے اچکانا، زبان درازی کرنا یا پھر کھلا اختلاف کرنا گویا اپنی موت کو دعوت دینا ہے، نہیں نہیں، لفظی معنوں میں نہیں بلکہ محاورتاً، کیونکہ کھلاڑی کو قیمتی پیسے سے محروم ہونا پڑ سکتا ہے، اس پر ایک سے لے کر کئی میچز تک کی پابندی لگ سکتی ہے اور کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ انحصار اس بات پر کہ اختلاف اور ردعمل کتنی شدت کا تھا۔ لیکن کرکٹ میں کئی مرتبہ ایسا بھی ہوا ہے کہ کسی کھلاڑی یا ٹیم کی قوت برداشت نے جواب دے دیا اور انہوں نے امپائر کے فیصلے سے کھلا اختلاف کرکے اس کی ناراضگی کو مول لیا اور اپنے لیے پریشانی کا سامان پیدا کیا۔ آئیے، کچھ ایسے ہی دلچسپ اور انوکھے واقعات پر نظر ڈالتے ہیں:
ویسٹ انڈیز بمقابلہ نیوزی لینڈ، کرائسٹ چرچ، 1980ء
1979ء کے اختتام تک ویسٹ انڈیز بلاشبہ دنیائے کرکٹ کا بادشاہ تھا۔ دو عالمی کپ جیتنے کے بعد اسے کون روک سکتا تھا۔ آسٹریلیا کے شاندار دورے کے بعد ویسٹ انڈیز نیوزی لینڈ کے دورے پر تھا جس کے بارے میں توقع تھی کہ ایک تر نوالا ثابت ہوگا۔ لیکن امپائر گڈال نے نیوزی لینڈ کے 'بارہویں کھلاڑی' کا کردار ادا کیا۔ وہ پہلے ہی مقابلے میں متنازع فیصلوں کی وجہ سے موضوع بحث بن گئے۔
گڈال کوئی پروفیشنل امپائر نہیں تھے۔ ایک مدرس تھے جو اسکول میں پڑھاتے تھے۔ ان کی انگلی کے اشاروں پر ویسٹ انڈیز کے کھلاڑی ایک کے بعد ایک ایل بی ڈبلیو ہوتے رہے یہاں تک کہ رچرڈ ہیڈلی کی وکٹوں کی تعداد پہلی اننگز میں پانچ تک پہنچ گئی، جن میں سے چار ایل بی ڈبلیو تھے۔ میچ میں انہوں نے کل 7 کھلاڑیوں کو ایل بی ڈبلیو کیا۔
بہرحال، ماحول خراب ہوتا رہا یہاں تک کہ ویسٹ انڈیز کے باؤلر مائیکل ہولڈنگ نے جان پارکر کو آؤٹ نہ دینے پر غصے کے عالم میں لات مار کر وکٹیں گرا دیں۔ ان کی یہ تصویرظاہر کرنے کے لیے کافی ہے کہ مقابلے کے دوران حالات کیا ہوگئے تھے۔ بہرحال، کسی نہ کسی طرح امپائروں نے نیوزی لینڈ کو پہلا ٹیسٹ ایک وکٹ سے جتوا دیا۔
اب ذرا تصور کریں کہ کالی آندھی کا "دماغ" کس شدت سے گھوما ہوگا۔ کرائسٹ چرچ میں دوسرا ٹیسٹ کھیلاگیا جہاں تیسرے دن تک تو حالات ٹھیک تھے لیکن امپائر گڈال کی جانب سے جیف ہاورتھ کو ناٹ آؤٹ قرار دینے سے پھر درجہ حرارت بڑھنے لگا۔ گیند ان کے دستانوں سے لگ کر گئی تھی۔ طرہ یہ کہ پھر ہاورتھ نے 147 رنز بنائے حالانکہ وہ اس وقت صرف 68 پر کھیل رہے تھے جب انہیں ناٹ آؤٹ قرار دیا گیا تھا۔ یوں نیوزی لینڈ نے ویسٹ انڈیز کے 228 رنز کے جواب میں 460 رنز جمع کر ڈالے۔ لیکن اس مقام تک پہنچنے سے قبل ایک اور ڈرامائی موڑ ضرور آیا۔ چائے کے وقفے کے بعد ویسٹ انڈیز نے اپنے کھلاڑیوں کو میدان میں اتارنے سے انکار کردیا۔ امپائر اسٹیو وڈ ورڈ نے فریڈ گڈال کو بتایا کہ ویسٹ انڈیز انہیں امپائر کی حیثیت سے نہیں دیکھنا چاہتا لیکن نیوزی لینڈ بورڈ گڈال کے ساتھ تھا۔ یہاں تک کہ 12 منٹ بعد یہ ڈرامہ اختتام کو پہنچا۔ ویسٹ انڈیز نے ایک انوکھا طریقہ ڈھونڈا۔ انہوں نے جان بوجھ کر کیچ چھوڑنے شروع کردیے اور گیندوں کو چوکے کے لیے جانے بھی دیا۔ تیسرا دن آرام کا تھا اور حالات اس نہج پر پہنچ گئے تھے کہ ایسا لگتا تھا کہ وہ دورہ چھوڑ کر چلے جائیں گے۔ انہوں نے ڈریسنگ روم تک خالی کردیے۔ انتظامیہ نے معاملات سنبھالے اور سمجھا بجھا کر کھلاڑیوں کو ان ارادوں سے باز رکھا۔
لیکن گڈال کو کون روکتا؟ جب مقابلہ دوبارہ شروع ہوا تو کولن کرافٹ کی ایک گیند رچرڈ ہیڈلی کے بلے کا کنارہ لے گئے۔ امپائر ایک مرتبہ پھر بہرے بن گئے۔ یہ کہنا تو شاید غلط ہو کہ جان بوجھ کر لیکن ان کے بیشتر فیصلے ویسٹ انڈیز کے خلاف جا رہے تھے۔ اس پر کرافٹ خاصے غصے میں آ گئے۔ آؤٹ نہ دینا ان کے لیے قابل برداشت نہیں تھا۔ انہوں نے امپائر کی "شان" میں کچھ جملے کہے۔ جس پر امپائر نے ویسٹ انڈین کپتان کلائیو لائیڈ کو تنبیہ کی۔ کرافٹ پہلے ہی کریز کی چوڑائی کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے باؤلنگ کر رہے تھے۔ اگلی ہی گیند پر امپائر گڈال نے نو-بال قرار دے دیا۔ یہ اب سراسر مقابلہ بن چکا تھا اور تیز گیندباز سے بڑھ کر کوئی ایسے مقابلے جیتنا نہیں جانتا۔ اگلی گیند پر کرافٹ پوری رفتار سے دوڑتے ہوئے آئے اور امپائر کو کہنی مار کر نکل گئے۔
مقابلہ تمام حدود پار کر چکا تھا۔ انتہائی بدمزگی کے دوران یہ ٹیسٹ ڈرا ہوا اور بعد میں آنے والا تیسرا ٹیسٹ بھی۔ دونوں بورڈز کے تعلقات بری طرح خراب ہوئے یہاں تک کہ تحریری معافی کے ذریعے تلافی ہوئی۔ لیکن یہ ٹیسٹ مقابلہ ثابت کر چکا تھا کہ غیر جانب دار امپائروں کی ضرورت کتنی زیادہ ہے۔
آسٹریلیا بمقابلہ بھارت، ملبورن، 1981ء
یہ امپائرنگ کے حوالے سے ایک مایوس کن سیریز تھی۔ گریگ چیپل پہلی اننگز میں صفر پر آؤٹ ہوئے تھے لیکن میزبان امپائر کی شفقت کی وجہ سے بچ گئے۔ گاوسکر کہتے ہیں کہ اس مقابلےمیں 7 فیصلے بھارت کے خلاف گئے۔ آسٹریلیا پہلے ہی اس سیزن میں تنازعات کا شکار رہا تھا جب ٹریور چیپل نے نیوزی لینڈ کے خلاف 'انڈر آرم' گیند پھینکی تھی تاکہ آخری گیند پر چھکا مار کر نیوزی لینڈ مقابلہ نہ جیت جائے۔پھر یہ بلے بازی کے حوالے سے گاوسکر کا برا دور تھا۔ دوسری اننگز میں جب وہ 70 رنز تک پہنچ گئے تو اعتماد میں اضافہ ہوا۔ یہ سیریز میں ان کی سب سے اچھی اننگز تھی لیکن یہیں پر انہیں ایل بی ڈبلیو قرار دے دیا گیا۔ ڈینس للی کی گیند ان کے پیڈ سے ٹکرائی اور امپائر نے فوری طور پر انگلی فضا میں بلند کردی۔ پہلے تو گاوسکر حیرانگی سے انہیں دیکھتے رہے اور پھر للی کے تند و تیز جملوں کے بعد وہ سر ہلاتے ہوئے واپس جانے لگے۔ بڑبڑاتے ہوئے گاوسکر چند میٹر دور ہی گئے کہ انہیں یاد آ گیا کہ وہ کچھ "بھول" رہے ہیں۔ وہ واپس گئے اور دوسرے کنارے پر موجود بلے باز چیتن چوہان کو بھی میدان سے باہر لانے لگے۔ اس وقت چوہان اپنی پہلی ٹیسٹ سنچری کے قریب تھے لیکن "کپتان" کا فیصلہ ماننے کے علاوہ ان کے پاس کوئی چارہ نہیں تھا۔
یہ دونوں کھلاڑی میدان سے واپس آ رہے تھے کہ ٹیم مینیجر نے مداخلت کی اور گاوسکر کو سمجھا بجھایا۔ وہ تو ہتھے سے ہی اکھڑے ہوئے تھے۔ بہرحال، کسی نہ کسی طرح اگلے بلے باز دلیپ وینگسارکر کو چیتن چوہان کے ساتھ واپس میدان میں اتارا گیا۔ بیچارے چوہان کا ذہن تو بٹ ہی چکا تھا، وہ کچھ ہی دیر مزید ٹک پائے اور 85 رنز پر آؤٹ ہو کر سنچری سے محروم رہ گئے۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ وہ 40ٹیسٹ کے کیریئر میں پھر کبھی سنچری نہ بنا سکے۔
گاوسکر نے بعد میں مسلسل غلط فیصلوں کا رونا رویا جبکہ بھارتی ٹیم کی انتظامیہ کو فوری مداخلت کرنے اور ٹیسٹ اور دورے کو بچانے پر سراہا گیا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ میزبان امپائروں کی بدترین کارکردگی میں یہ بھی ایک سیاہ باب تھا۔ بہرحال، مزیدار بات یہ ہے کہ بھارت نے 324 رنز بنا کر آسٹریلیا کو 143 رنز کا ہدف دیا اور کپل دیو کی شاندار باؤلنگ کی بدولت اسے صرف 83 رنز پر ڈھیر کرکے میچ جیت لیا اور سیریز بھی برابر کردی۔
پاکستان بمقابلہ بھارت، بنگلور 1983ء
سنیل گاوسکر ایک مرتبہ پھر حاضر ہیں۔ دو سال بعد 1983ء میں پاکستان کے دورۂ بھارت کا پہلا ٹیسٹ خراب موسم اور سست کھیل کی وجہ سے کسی نتیجے کی طرف جاتا نہیں دکھائی دے رہا تھا۔ بھارت نے پہلے بلے بازی کرتے ہوئے 275 رنز بنائے تھے۔ جس کے جواب میں پاکستان نے 288 رنز بنائے۔ لیکن ان معمولی مجموعوں کے بننے میں ہی آخری دن آ گیا۔ سنیل گاوسکر مقابلے میں بیمار تھے اور پاکستانی بیٹنگ کے دوران فیلڈنگ کے لیے میدان میں نہیں اترے تھے لیکن بھارتی کی دوسری اننگز کی شروعات ہوئی تو وہ انشومن گائیکواڑ کے ساتھ بلے بازی کے لیے میدان میں اترے۔ مقابلے کا نتیجہ خیز ہونا تو ناممکنات میں سے تھا۔ امپائروں نے پاکستانی کپتان ظہیر عباس کو بتایا تھا کہ 77 اوورز باؤلنگ کرنا پڑے گی۔
امپائر مادھو گوٹھوسکر نے اپنی سوانح حیات " The Burning Finger" میں بتایا کہ میں نے ظہیر عباس کو کہا کہ لازمی اوورز کی باؤلنگ کرنا پڑے گی۔ اگر یہ مقابلہ انگلینڈ میں ہوتا اور نتیجہ کی کوئی توقع نہ ہوتی تو اوور نہیں پھینکے جاتے۔ لیکن بھارت میں ناظرین کے جذبات کو دھیان میں رکھ کر ایسا نہیں کیا جا سکتا۔"
چائے کے وقفے کے بعد سنیل گاوسکر کو مقابلے میں سنچری بنانے کی امید نظر آ رہی تھی۔ یہ سنچری انہیں سب سے زیادہ سنچریوں کی فہرست میں ڈان بریڈمین کے مزید قریب لے آتی۔
لیکن 77 اوورز ہو چکے تھے۔ ظہیر عباس نے امپائروں سے مشورہ کیے بغیر کھلاڑیوں کو میدان سے واپس بلا لیا۔ امپائر کشمکش میں آ گئے، انہوں نے سنیل گاوسکر سے بات کی جو کھیل جاری رکھنا چاہتے تھے۔ پاکستان کے کھلاڑی میدان سے باہر جا چکے تھے اور بھارت کے بلے باز وکٹ پر ڈٹے ہوئے تھے۔ امپائروں نے پاکستانی کپتان، مینیجر اور کرناٹک کرکٹ ایسوسی ایشن کے حکام سے بات کی۔ کپل دیو نے گاوسکر کو سمجھانے کی کوشش کی لیکن اُن پر تو دھن سوار تھی۔ امپائر گھوٹوسکر نے اپنی سوانح حیات میں لکھا کہ "پاکستان کے میدان چھوڑنے کے بعد گاوسکر وہیں جمے رہے۔ انہوں نے گائیکواڑ کو بھی میدان سے جانے سے روک دیا۔"
حالات بدتر ہونے لگے، امپائروں نے پاکستان کے کھلاڑیوں کو انتباہ جاری کیا کہ اگر وہ میدان میں نہ آئے تو شکست کا اعلان کردیا جائے گا۔ یہ دھمکی کارگر ثابت ہوئی۔ پھر گیندبازوں نے باؤلنگ تو کی لیکن فیلڈرز ایک ہی جگہ کھڑے رہے۔ اس کی وجہ سے دن کے آخری اوور میں گاوسکر نے اپنی سنچری مکمل کی۔ ظہیر تمام کھلاڑیوں سمیت دوبارہ واپس آ گئے۔ اس بار کسی نے شکایت نہیں کی۔ امپائر کہتے ہیں کہ "بورڈ کے ایک عہدیدار نے دلیل دی کہ اگرگاوسکر کو اسی طرح اپنی سنچری پوری کرنی ہیں تو انہیں ریٹائرمنٹ لے لینی چاہیے۔"
پاکستان بمقابلہ انگلستان، فیصل آباد 1987ء
1987ء میں دسمبر کے یہی ایام تھے جب فیصل آباد میں پاک-انگلستان ٹیسٹ نے ایک نئی "تاریخ" مرتب کی۔ یہ کوئی خوش کن یاد نہیں بلکہ اسے کرکٹ کا 'تاریک پہلو' کہا جائے تو مناسب ہوگا۔ سیریز کے پہلے ٹیسٹ میں لاہور میں پاکستانی امپائروں نے جس طرح کی کارکردگی دکھائی اس پر انگلستان کا غصہ بالکل بجا تھا لیکن اس کا اظہار اتنے نامناسب انداز میں کرنا کپتان مائیک گیٹنگ کو زیب نہ دیتا تھا۔ جب مقابلے کے دوسرے روز کے اختتامی لمحات میں امپائر شکور رانا نے مائیک گیٹنگ کو منع کیا کہ وہ باؤلنگ کے دوران فیلڈنگ میں تبدیلی نہ کریں تو انگریز قائد کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔ وہ پھٹ پڑے اور امپائر سے الجھ بیٹھ۔ دونوں کے درمیان تند و تیز جملوں کا تبادلہ ہوا اور سخت کشیدگی کے عالم میں تیسرے دن کا کھیل ختم ہوگیا۔
اگلے دن شکور رانا نے میدان میں اترنے سے انکار کردیا اور شرط لگائی کہ جب تک مائیک گیٹنگ معافی نہیں مانگیں گے، وہ امپائرنگ نہیں کریں گے۔ دوسری جانب گیٹنگ کا مطالبہ تھا کہ معافی تو شکور رانا کو مانگنی چاہیے جنہوں نے اتنے گھٹیا الفاظ استعمال کیے۔ یہ ہنگامہ اتنا طو ل پکڑ گیا کہ تیسرے دن کا کھیل ہی ممکن نہ ہو سکا۔ یہ کرکٹ تاریخ کا واحد موقع تھا کہ کسی میچ آفیشل اور ایک ٹیم کے کپتان کے درمیان جھگڑے کی وجہ سے کسی دن کا کھیل ہی ممکن نہ ہو سکا۔ معاملہ اتنا آگے بڑھ گیا کہ انگلستان کے ٹیم مینیجر، کپتان اور تمام کھلاڑیوں نے دورہ منسوخ کرنے کی دھمکی دے دی۔ جواب میں پاکستان کرکٹ بورڈ نے بھی بیان داغا کہ اگر باقی میچ میں مائیک گیٹنگ کھیلے تو پاکستان کھیلنے سے انکار کردے گا۔ بہرحال، اگلا دن آرام کا تھا اور فریقین کے پاس سوچنے کے لیے کافی وقت۔ یہاں تک کہ انگلش کرکٹ بورڈ کی جانب سے خصوصی حکم نامہ موصول ہونے پر گیٹنگ نے شکور رانا سے معافی مانگ لی۔ ایک دن کا کھیل ضائع ہونے کی وجہ سے فیصل آباد ٹیسٹ نتیجہ خیز ثابت نہ ہو سکا لیکن زیادہ افسوس ناک بات یہ تھی کہ اگلے 13 سال تک انگلستان نے پھر دوبارہ پاکستان کا دورہ نہیں کیا۔
سری لنکا بمقابلہ انگلستان، ایڈیلیڈ، 1999ء
سری لنکا کے مرلی دھرن تاریخ کے کامیاب ترین گیندباز ہیں لیکن اگر ان کے باؤلنگ ایکشن کو دیکھا جائے تو یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ وہ اس لحاظ سے متنازع ترین باؤلر بھی تھے۔ 1995ء کے آخری ایام میں جب سری لنکا اور آسٹریلیا ملبورن کے روایتی باکسنگ ڈے میں مقابل تھے تو امپائر ڈیرل ہیئر نے مشکوک باؤلنگ ایکشن پر ان کی 7 گیندوں کو نو-بال قرار دیا۔ یہ تمام نو-بالز صرف تین اوورز کے دوران دی گئیں اور اس وقت 55 ہزار سے زیادہ تماشائی میدان میں موجود تھے جنہوں نے آسمان سر پر اٹھا رکھا تھا۔ یہی نہیں بلکہ چند دن بعد جب سہ فریقی سیریز میں سری لنکا ویسٹ انڈیز کے مقابل آیا تو ایک اور امپائر راس ایمرسن نے ان پر ہاتھ صاف کرنا ضروری سمجھا۔ سری لنکا کے کپتان ارجنا راناتنگا نے کھیلنے سے انکار کردیا اور چند منٹ بعد کھیل کا دوبارہ آغاز ہوا۔ اس کے بعد مرلی کے باؤلنگ ایکشن کی باضابطہ طور پر جانچ کروائی گئی۔ معاملہ ٹھنڈا ہوگیا، نتائج مرلی کے حق میں آئے۔
لیکن 1999ء میں جب سری لنکا ایک مرتبہ پھر آسٹریلیا کے دورے پر تھا تو انگلستان کے خلاف ایک ون ڈے مقابلے میں راس ایمرسن نے پھر پرانی یادیں تازہ کرنے کی ٹھانی۔ انہوں نے پھر مرلی کی ایک گیند کو نو-بال قرار دے دیا۔ اب راناتنگا کا ضبط ٹوٹ چکا تھا۔ انہوں نے پوری ٹیم میدان سے واپس بلا لی۔ مقابلہ کے دوبارہ آغاز کے امکانات بہت کم دکھائی دے رہے تھے لیکن سری لنکا کرکٹ بورڈ کے صدر کی مداخلت کے بعد معاملات درست ہوئے اور 15 منٹ کے تعطل کے بعد مقابلہ دوبارہ شروع ہوا۔
لیکن بدمزگی پیدا ہو چکی تھی، کھلاڑیوں میں بھی باہمی تلخی نمایاں تھی۔ جب راناتنگا بیٹنگ کر رہے تھے تو انگلش وکٹ کیپر ایلک اسٹیورٹ نے کہا کہ "تمہارارویہ ہر گز کسی ملک کے کپتان جیسا نہیں۔"دوسری طرف جب روشن مہاناما کی ڈیرن گف کے ساتھ نوک جھونک ہوئی تو کپتان نے ان کی پیٹھ ٹھونکی اور شاباشی دی۔
حقیقت یہ ہے کہ راناتنگا نہ ہوتے تو مرلی کا بین الاقوامی کیریئر ختم ہو جاتا۔ ہر نازک موڑ پر راناتنگا نے مرلی کا ساتھ دیا اور یہی وجہ ہے کہ آج مرلی ٹیسٹ اور ایک روزہ کرکٹ میں سب سے زیادہ وکٹیں لینے کا ریکارڈ رکھتے ہیں۔ اس میں مرلی کی اپنی مستقل مزاجی، دھیما پن اور تحمل بھی شامل ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب ملک میں تامل اور سنہالی باشندوں کے درمیان زبردست خانہ جنگی جاری ہو، وہاں مرلی جیسے تامل کی حمایت میں ٹیم کے تمام سنہالی کھڑے ہوگئے اور یوں کرکٹ نے سری لنکا کو متحد کردیا۔
پاکستان بمقابلہ انگلستان، اوول، 2006ء
پاکستان اور انگلستان کے درمیان 2006ء میں کھیلا گیا اوول ٹیسٹ بلاشبہ کرکٹ تاریخ کا ایک سیاہ باب تھا۔ چوتھے روز جب امپائروں ڈیرل ہیئر اور بلی ڈاکٹروو نے گیند کے معائنے کے بعد قرار دیا کہ پاکستان کے باؤلر گیند کے ساتھ چھیڑچھاڑ کر رہے ہیں تو معاملہ سنگین صورت اختیار کرنا شروع ہوگیا۔ پہلے انگلستان کو پنالٹی کےپانچ رنز ملے اور گیند تبدیل کردی گئی۔ انضمام سٹپٹائے تو بہت لیکن ہمیشہ کی طرح ردعمل دکھانے میں کافی دیر کی۔ چائے کے وقفے کے بعد انہیں خیال آیا کہ یہ احتجاج کرنے کا "درست" وقت ہے اور انہوں نے ٹیم کے واپس میدان میں اتارنے سے انکار کردیا۔ امپائروں نے پہلی کوشش کے 15 منٹ بعد دوبارہ رابطہ کیا اور اس کے کچھ ہی دیر بعد بغیر کسی انتباہ کے انگلستان کو فاتح قرار دے دیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کے چند ہی منٹوں بعد پاکستان کے تمام کھلاڑی میدان میں موجود تھے لیکن اس مرتبہ امپائروں نے کہا کہ مقابلہ ختم ہو چکا ہے۔
یوں اوول ٹیسٹ کرکٹ کی پوری تاریخ میں واحد مقابلہ بن گیا جس میں کسی ایک ٹیم کے کھیلنے سے انکار کی وجہ سے دوسری کو فاتح قرار دیا گیا۔ یہ کوئی آسان فیصلہ نہیں تھا اور ڈیرل ہیئر جیسا سخت گیر امپائر ہی ایسا فیصلہ کر سکتا تھا۔ اس کے نتیجے میں دنیائے کرکٹ دو حصوں میں تقسیم ہوگئی۔ پاکستان کے شائقین کے علاوہ ایک بڑی تعداد ایسے افراد کی بھی تھی جنہوں نے انضمام الحق کے فیصلے کو جرات مندانہ قرار دیا جبکہ دیگر نے اس بے وقوفانہ حرکت سمجھا۔ گو کہ انضمام الحق کو اس حرکت پر چار مقابلوں کی پابندی کا سامنا کرنا پڑا لیکن حقیقی نقصان ڈیرل ہیئر کو پہنچا۔ وہ ویسے ہی متنازع فیصلوں کی وجہ سے ناپسندیدہ شخصیت تھے، اس واقعے کے بعد تو گویا ان کا عہد تمام ہوگیا۔
بین الاقوامی کرکٹ کونسل نے بعد ازاں معاملے کی مکمل تحقیقات کیں اور پاکستان کے گیندبازوں پر بال ٹمپرنگ کا الزام غلط ثابت ہوا۔ لیکن اس پورے چکر میں آئی سی سی نے دو سال لگا دیے۔ فیصلہ تبدیل کرکے ہوئے مقابلے کو ڈرا قرار دیا گیا لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک سال بعد 2009ء میں ایک مرتبہ پھر 'یو ٹرن' لیا گیا اور اس مرتبہ پھر انگلستان کو فاتح قرار دیا گیا۔ آخر ایسا کیوں ہوا؟ کیونکہ ایک طرف پاکستان کرکٹ بورڈ جیسا کمزور ادارہ تھا۔ یہ وہی ڈیرل ہیئر تھے جنہوں نے کئی سال پہلے مرلی دھرن کی گیندوں کو نو-بال قرار دیا تھا کیونکہ وہ سمجھ رہے تھے کہ مرلی کا ایکشن شفاف نہیں ہے۔