عامر کو آنے دو!!
حالات بلے بازوں کے لیے سازگار ہیں، وکٹ پر ایک ایسا بلے باز موجود ہے، جس کی نظریں اچھی طرح جم چکی ہیں اور ہرگز ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ وہ جلد اپنی وکٹ گنوائے گا۔ اس دوران گیندباز آتا ہے اور اس کی گیند بلے باز کے اگلے قدموں سے محض چند انچ پہلے زمین پر پڑتی ہے، بلے باز ہاف-فلک کھیلنے کے لیے جاتا ہے لیکن گیند کی رفتار اس کو غچہ دے جاتی ہے اور آف اسٹمپ میں جا گھستی ہے، یوں ایک سیٹ بیٹسمین آؤٹ!
اگر آپ ایک کرکٹ پرستار ہیں اور ان سطروں کے ساتھ اپنے تخیل کے گھوڑے بھی دوڑا رہے ہیں تو آپ ضرور 1999ء کے اس پاک-بھارت چنئی ٹیسٹ کو تصور میں لا رہے ہوں گے۔ جی ہاں! وہی گیند جو 'دیوار' میں چھید کرتی ہوئی بھارتی کی بیٹنگ لائن کو بڑا دھچکا پہنچا گئی تھی۔ ہو سکتا ہے کہ آپ کا جواب بالکل ٹھیک ہو، لیکن درحقیقت یہ سطیرں اس سال بنگلہ دیش پریمیئرلیگ کی اس مشہور گیند کے بارے میں ہیں جس پر محمد عامر نے شاہد آفریدی کو بولڈ کیا تھا۔ بالکل 1999ء کے وسیم بمقابلہ ڈریوڈ کی طرح!
محمد عامر پاکستان کا ایسا باؤلر ہے، جو شروع ہی سے سب کی نظروں کا مرکز رہا ہے اور ڈومیسٹک کرکٹ میں واپسی پر بھی وہ ثابت کر چکا ہے کہ اس نے اب تک اپنا جادو کھویا نہیں ہے۔ وہی رفتار، وہی سوئنگ اور وہی شاطر دماغ جو فیلڈ کے مطابق باؤلنگ کرتا تھا۔ جب 18 سال کا تھا تب شائقین کرکٹ نے جو سوچا تھا، عامر 23 سال کی عمر میں بالکل ویسا ہی ہے۔ یہ کرکٹ میں 'ٹارزن کی واپسی' کی طرح ہے اور اس کے اعداد و شمار بھی دنیا پر واضح ہو چکے ہیں۔ 9.88 کے اوسط سے 17 مقابلوں میں 168 وکٹیں۔
محمد عامر کی بین الاقوامی میں آمد بھی اچانک تھی۔ بالکل ورلڈ ٹی ٹوئنٹی سے قبل اور شعیب اختر اور پاکستان کرکٹ بورڈ کے جذباتی تعلق کے خاتمے کے بعد، کہ جس کے نتیجے میں راولپنڈی ایکسپریس کے انگلستان کے دورے سے باہر کردیا گیا اور ایک اور "پنڈی بوائے" کو ٹیم میں شامل کیا گیا۔ یہ محمد عامر تھا، جس نے پہلے ہی مرحلے میں اپنی موجودگی کا احساس دلایا۔ ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے فائنل میں اس بلے باز کو صفر پر ٹھکانے لگایا، جسے مین آف دی ٹورنامنٹ قرار دیا گیا۔ چیمپئنز ٹرافی 2009ء میں سچن تنڈولکر کو پھینکا گیا لیگ کٹر 'کرکٹ کے بھگوان' کو بتا گیا کہ کس شیر کی آمد ہے۔ وہ آسٹریلیا کے خلاف انگلینڈ میں ہونے والی پاکستان کی 'ہوم سیریز' میں بھی نگاہوں کا مرکز تھا۔ لیکن پھر 'کرکٹ کے گھر' لارڈز میں پاکستان کرکٹ کے لیے بدترین دن میں کپتان اور ٹیم کے دوسرے اہم ترین گیندباز کے ساتھ اسپاٹ فکسنگ میں پکڑا گیا۔
اپنے دوسرے ساتھیوں کے مقابلے میں عامر نے، چاہے دیر سے ہی صحیح، اپنی غلطی اور جرم کا اعتراف کیا اور اپنی سزا پوری خاموشی کے ساتھ مکمل کی۔ کسی ٹیلی وژن چینل پر کرکٹ ماہر کے طور پر پروگرام نہیں کیا بلکہ انتظار کیا اس دن کہ وہ کرکٹ کے میدان پر ایک مرتبہ پھر قدم رکھ سکے۔ بالآخر عامر واپس آیا، اس نے دیکھا اور فتح کرلیا۔ اس کی اب تک کی کارکردگی ثابت کرتی ہے کہ وہ دوسرے موقع کا حقدار ہے۔ یقین جانیں #BringBackAmir کی مہم #BringBackSami والی مہم سے کہیں زیادہ معقول ہے۔
اس بچے سے غلطی ہوئی، اس نے سزا پائی، پابندی بھگتی، کرکٹ شائقین اور 'ماہرین' کی جلی کٹی باتیں خاموشی سے سنیں اور ان سب کا جواب صرف میدان میں کارکردگی کے ذریعے دیا۔ جرم کی سزا پانے والے کو تو خدا کے حضور بھی معافی مل جاتی ہے لیکن ہمارے ہاں چند لوگ خدائی منصب سنبھال کر بیٹھ گئے ہیں۔ کسی کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ مجرم کو زبردستی ماضی میں دھکیلے اور کہے کہ اب اسی کے اندر جیو، ماضی بھی ایسا جو تاریک ہے، جبکہ عامر کا تو حال بھی روشن ہے اور مستقبل تابناک۔ صرف 17 مقابلوں میں 168 وکٹیں اس کے حال کو ظاہر کرنے کے لیے کافی ہیں۔
پاکستان کے قومی دستے میں ایک مرتبہ پھر عامر کی شمولیت نہ صرف ہمیں حال میں کام دے گی بلکہ مستقبل کے کئی گیندبازوں کو بھی تحریک دے گی۔ جس طرح فضل محمود، عمران خان، وسیم اکرم، وقار یونس اور شعیب اختر کو دیکھ کر نئے باؤلرز میدان میں اترتے تھے۔ ہمیں 'پوسٹر بوائے' کی ضرورت ہے اور پاکستان کی تیز باؤلنگ کو جدید عہد میں زندہ کرنے کی بھی۔
(نوٹ: یہ تحریر بنگلہ دیش پریمیئر لیگ کے دوران اس مقابلے کے بعد لکھی گئی تھی جب محمد عامر نے شاہد آفریدی کو آؤٹ کیا تھا)