[سالنامہ 2015ء] سال کے گمنام ہیروز
کرکٹ کے لحاظ سے 2015ء ایک بہترین سال رہا، آخر کیوں نہ ہوتا؟ یہ عالمی کپ کا سال جو تھا۔ دنیائے کرکٹ کا سب سے بڑا اعزاز اس سال آسٹریلیا کے نام رہا لیکن آسٹریلیا لے کر افغانستان تک تقریباً سبھی ملکوں کے لیے یہ سال کسی نہ کسی لحاظ سے یادگار رہا۔ پاکستان نے انگلستان کو شکست دی، بھارت نے جنوبی افریقہ کے خلاف ٹیسٹ سیریز جیتی، نیوزی لینڈ نے عالمی کپ کے فائنل تک رسائی حاصل کی اور سال کا اختتام سری لنکا کے خلاف شاندار فتوحات کے ساتھ کیا، بنگلہ دیش نے تو کمال ہی کردیا، عالمی کپ کے کوارٹر فائنل تک رسائی حاصل کی اور اس کے بعد پاکستان، بھارت اور جنوبی افریقہ جیسے سخت حریفوں کے خلاف ایک روزہ سیریز جیتیں۔ انگلستان سال کے جاتے جاتے جنوبی افریقہ کے خلاف ایک یادگار فتح کے قریب کھڑا ہے۔ اتنی ساری کامیابیاں انفرادی سطح پر کئی کھلاڑیوں کی کارکردگی کی بدولت ہی حاصل ہوتی ہیں جن میں سے چند بہت نمایاں ہوتے ہیں، جبکہ کئی گمنام بھی رہتے ہیں۔ سالنامہ 2015ء کے سلسلے کی اس خصوصی تحریر میں ہم ان چند گمناموں کا ذکر کریں گے، جن کا اپنے ملک کی کامیابی میں کردار بہت اہم رہا لیکن میلہ کوئی اور لوٹ گیا۔
دولت زدران
افغانستان کے لیے سال 2015ء توقعات سے کہیں بڑھ کر ثابت ہوا۔ عالمی کپ میں عمدہ کارکردگی کے ساتھ ساتھ انہوں نے خاتمہ زمبابوے کے خلاف یادگار کامیابی کے ذریعے کیا ہے اور یوں ایک روزہ کی عالمی درجہ بندی میں سرفہرست 10 ٹیموں میں شامل ہو گیا۔ اس میں نمایاں کردار تیز گیندباز دولت زدران کا بھی ہے۔ انہوں نے سال بھر میں کل 23 ایک روزہ اور ٹی ٹوئنٹی مقابلے کھیلے اور 24.16 کے شاندار اوسط کے ساتھ 31 وکٹیں حاصل کیں۔ ان میں 15 ایک روزہ مقابلے تھے جن میں 29.05 کے اوسط سے حاصل کردہ 18 وکٹیں بھی شامل تھیں۔ جس میں ان کی بہترین کارکردگی 22 رنز دے کر 4 وکٹیں حاصل کرنا رہی۔
اب جبکہ افغانستان خطے میں ایک نئی قوت کے طور پر ابھر رہا ہے دولت کی کارکردگی آئندہ سال افغانستان کے لیے بہت اہم ثابت ہوگی۔
شاں ولیمز
زمبابوے رو بہ زوال ہے، 1999ء میں جو زمبابوے تھا وہ ابھرتی ہوئی طاقت تھا جس سے دنیا کی ہر کرکٹ قوت لرزہ بر اندام تھی۔ اب موجودہ دستہ اس کا محض 'سایہ' ہے۔ لیکن رواں سال ہمیں شاں ولیمز دکھائی دیے تو یقین جانیں نیل جانسن کی یادیں تازہ ہوگئیں۔ 2015ء میں 26 ایک روزہ مقابلوں میں تقریباً 39 کا اوسط اور 893 رنز، ایک سنچری اور 7 نصف سنچریاں ان کی صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ پھر سال بھر میں کھیلے گئے 10 ٹی ٹوئنٹی مقابلوں میں 30 سے زیادہ کا اوسط اور 135 کا اسٹرائیک ریٹ بھی ان شاندار قابلیت ظاہر کرتا ہے۔
یہی نہیں بلکہ انہوں نے گیندبازی میں بھی اپنے کمالات دکھائے ہیں۔ ایک روزہ میں 15 اور ٹی ٹوئنٹی میں 9 وکٹیں ان کے حصے میں آئیں اور ساتھ ہی وہ ایک عمدہ فیلڈر کے روپ میں بھی نظر آئے۔
مشفق الرحیم
اس امر میں تو کوئی شک ہی نہیں کہ سال 2015ء بنگلہ دیش کے لیے ایک روزہ کرکٹ میں زبردست رہا۔ سومیا سرکار اور مستفیض الرحمٰن کا نام تو سب کے لبوں پر ہے اور دونوں کو اس کارکردگی پر بیرون ملک بھی سراہا گیا ہے۔ اسی سے اندازہ لگا لیں کہ پاکستان سپر لیگ میں گولڈ زمرے میں جب کراچی کنگز نے محمد عامر کا انتخاب کیا تو لاہور قلندرز نے کئی معروف کھلاڑیوں پر مستفیض کو ترجیح دی۔ بہرحال، جس کھلاڑی نے سال بھر گمنام رہتے ہوئے بنگلہ دیش کی کامیابیوں میں اپنا حصہ ڈالا، وہ وکٹ کیپر مشفق الرحیم تھے۔
سال بھر میں کھیلے گئے 18 ایک روزہ مقابلوں میں انہوں نے 51 سے زیادہ کے اوسط کے ساتھ 767 رنز بنائے جس میں دو سنچریاں بھی شامل رہیں۔ ایک سنچری انہوں نے پاکستان کے خلاف تین ایک روزہ مقابلوں میں بھی بنائی تھی جہاں بنگلہ دیش نے تاریخی کلین سویپ کیا تھا۔ جبکہ چار میں سے ایک نصف سنچری بھی انہوں نے اسی سیريز میں بنائی تھی۔ ساتھ ساتھ انہوں نے وکٹوں کے پیچھے 24 شکار بھی کیے۔
اسد شفیق
پاکستان دنیائے ٹیسٹ کی ایک بڑی قوت بن چکا ہے۔ گزشتہ پانچ سالوں میں مصباح الحق کی قیادت میں ٹیم دو مرتبہ عالمی درجہ بندی میں دوسری پوزیشن تک پہنچی۔ اس میں اہم کردار بلے بازوں کا بھی ہے۔ یونس خان، مصباح الحق اور محمد حفیظ کی بلے بازی تو سبھی سراہتے ہیں لیکن جس کھلاڑی نے مستقل مزاجی کے ساتھ اور نازک مواقع پر کارکردگی دکھائی، وہ اسد شفیق تھے۔ 8 ٹیسٹ، 54 سے زیادہ کا اوسط، تین سنچریاں اور اتنی ہی نصف سنچریاں اور 131 رنز کی بہترین اننگز کے ساتھ 706 رنز۔ انہوں نے نیوزی لینڈ اور سری لنکا کے ساتھ ساتھانگلستان کے جانے مانے باؤلنگ اٹیک کے خلاف بھی ایک سنچری بنائی۔
اب پاکستان کا اگلا امتحان اگلے سال کے وسط میں دورۂ انگلستان ہوگا جو بہت مشکل سیریز ہوگی اور اگر اسد شفیق ایسی ہی کارکردگی دہرانے میں کامیاب ہوگئے تو مصباح الحق کے بعد انہیں ٹیم میں مستقل جگہ مل جائے گی۔
جوش ہیزل ووڈ
دنیائے کرکٹ پر آسٹریلیا کا غلبہ ہمیشہ کی طرح موجود ہے لیکن رواں سال فتوحات میں مچل جانسن، مچل اسٹارک، ڈیوڈ وارنر اور اسٹیون اسمتھ کے کردار کو تو سب تسلیم کرتے ہیں لیکن جوش ہیزل ووڈ کو اپنی کارکردگی کے مطابق سراہا نہیں کیا۔ آسٹریلیا کا گمنام ہیرو یہی ہے۔ 12 ٹیسٹ میں 23 کے اوسط کے ساتھ 51 وکٹیں۔ ایک روزہ میں انہیں کم موقع ملا لیکن 7 مقابلوں میں 23 کے اوسط سے 9 وکٹیں ضرور حاصل کیں۔
المیہ یہ رہا کہ مچل اسٹارک کی عالمی کپ جتوانے والی کارکردگی اور مچل جانسن کی اچانک ریٹائرمنٹ سے ساری توجہ اس طرف چلی گئی۔ نہ سراہنے کے باوجود ہیزل ووڈ کی کارکردگی میں کوئی فرق نہ آیا۔ حال ہی میں کھیلے گئے تاریخی ڈے/نائٹ ٹیسٹ میں انہوں نے 70 رنز دے کر 6 وکٹیں حاصل کیں جو سال میں ان کی بہترین ٹیسٹ کارکردگی تھی۔
ویسے سال 2015ء جاتے جاتے ان کے ساتھ ایک اور مذاق کر گیا۔ ویسٹ انڈیز کے خلاف ٹیسٹ میں ان کی ایک گیند 164 کلومیٹر فی گھنٹے کی رفتار پار کرگئی جو خود ان کے لیے بھی بہت حیران کن تھا کیونکہ اگر واقعی اس گیند کی رفتار اتنی تھی تو یہ تاریخ کی تیز ترین گیند شمار ہوتی۔ لیکن بعد میں بتایا گیا کہ یہ رفتار کی پیمائش کرنے والی مشین کی خامی تھی جس کی وجہ سے گیند کی رفتار غلط ہوگئی۔ یعنی ایک اور اعزاز جس سے جوش محروم رہ گئے۔ لیکن ابھی ایک موقع ہے، چند ماہ میں ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کھیلا جانا ہے۔ اگر بھارت کی بے جان وکٹوں پر جوش ہیزل ووڈ آسٹریلیا کو کامیابیاں عطا کرگئے تو کوئی ان کو فراموش نہیں کرسکے گا۔