کھلاڑی جو نئے سال میں سب کو حیران کردیں گے
سال 2015ء کرکٹ میں کیسا رہا، اچھا رہا یا برا، کون اپنی شاندار کارکردگی کے ذریعے چھایا رہا، ان سب پر بہت بات ہوگئی۔ اعداد و شمار کے گورکھ دھندے سے نکلتے ہیں اور توقعات، امکانات اور امیدوں کی دنیا میں آتے ہیں اور اندازہ لگاتے ہیں کہ وہ کون سے کھلاڑی ہیں جو 2016ء میں کرکٹ کے میدانوں میں تہلکہ مچا سکتے ہیں۔ وہ کون سے کھلاڑی ہیں جو نئے سال میں بتائیں گے کہ ہم بھی کسی سے کم نہیں۔
یقین سے کچھ کہنا تو بہت مشکل ہے لیکن حالیہ کارکردگی کی بنیاد پر کم از کم پانچ ایسے کھلاڑیوں کا انتخاب ضرور کیا جا سکتا ہے اور حیران کن بات یہ ہے کہ ایک کھلاڑی نے تو ہماری تحریر لکھنے کے دوران ہی خود کو ثابت بھی کردیا۔ آئیے ان کھلاڑیوں پر نظر ڈالتے ہیں۔
محمد عامر
6 سال پہلے پاکستان کرکٹ میں ایک دمکتے ستارے کی آمد ہوئی تھی، صرف 17 سال کے محمد عامر، جو آئے، انہوں نے دیکھا اور فتح کرلیا۔ کرکٹ میدانوں میں وہ ایسا چمکے کہ آنکھوں کو یقین نہیں آتا تھا کہ اس عمر میں بھی بھلا کوئی اتنا اچھا کھیل پیش کر سکتا ہے؟
14 ٹیسٹ میں 51 وکٹیں، 15 ایک روزہ میں 25 شکار اور 18 ٹی ٹوئنٹی میں 23 کھلاڑیوں کو میدان بدر کرنے والے عامر کی پرواز کا یہ محض آغاز تھا لیکن ابتدائی شہرت دیکھ کر وہ بہت گئے اور غلط راستے پر نکل پڑے۔ جس مقابلے میں انہوں نے اپنے کیریئر کی بہترین اور یادگار ترین باؤلنگ کی اسی مقابلے کے دوران یہ خبر سامنے آئی کہ محمد عامر اسپاٹ فکسنگ میں ملوث ہیں اور اس کے بعد وہ پانچ سال کے طویل عرصے کے لیے کرکٹ سے باہر سے کردیے گئے۔ یہ وقت نہ صرف محمد عامر بلکہ پاکستان کے لیے بھی بہت مشکل تھا لیکن وقت چاہے کتنا ہی کڑا کیوں نہ ہو، بالآخر گزر جاتا ہے۔ عامر کے لیے ایک، ایک دن صدیوں کے برابر ہوگا اور بالآخر پانچ سال مکمل ہوئے اور عامر کے لیے ایک نئی زندگی کی شروعات ہوئی۔ یہ نیا آغاز ہرگز آسان نہیں تھا۔ انہیں نہ صرف اپنی کارکردگی سے خود کو بہترین کھلاڑی ثابت کرنا تھا بلکہ اس داغ کو بھی مٹانا تھا جو کیریئر کے آغاز ہی میں دامن پر لگ گیا تھا۔ پہلے ڈومیسٹک اور پھر بنگلہ دیش پریمیئر لیگ میں شاندار کارکردگی کے سبب سلیکٹرز سخت دباؤ کے باوجود مجبور ہوئے کہ انہیں ٹیم میں شامل کریں۔ ان کی کارکردگی کے بارے میں ٹیسٹ کپتان مصباح الحق کا یہی بیان کافی ہے کہ پانچ سال پہلے اور آج والے عامر میں کوئی فرق نہیں دکھائی دیتا۔
یوں سال 2016ء میں پاکستان کی پہلی مہم، دورۂ نیوزی لینڈ، کے لیے ہی سلیکٹرز نے عامر پر بھروسہ کیا ہے اور جس طرح کی کارکردگی پیش کر رہے ہیں، لگتا یہی ہے کہ نئے سال میں ان کی شاندار واپسی ہوگی اور ہمیں ان کی بہترین کارکردگی دیکھنے کو ملے گی۔
کوئنٹن ڈی کوک
جنوبی افریقہ کا ڈومیسٹک کرکٹ ڈھانچہ دنیا کے مضبوط ترین کرکٹ نظاموں میں سے ایک ہے۔ یہاں کھلاڑی مکمل جانچ پڑتال کے بعد عالمی سطح پر جنوبی افریقہ کی نمائندگی کا حقدار ٹھیرتا ہے اور کوئنٹن ڈی کوک بھی انہی سخت ترین معیارات سے گزر کر آئے ہیں اور بلاشبہ انہوں نے اپنے انتخاب کو ثابت کیا ہے۔ ایک روزہ میں 52 مقابلوں میں لگ بھگ 40 کے اوسط سے 1993 رنز، 8 سنچریاں اور 5 نصف سنچریاں اگر آپ کو قائل کرنے کے لیے کافی نہیں تو اس میں 22 ٹی ٹوئنٹی مقابلوں میں 121 رنز سے زیادہ کے اسٹرائیک ریٹ سے بنائے گئے 513 رنز بھی شامل کرلیں۔ گو کہ ڈی کوک کو اب تک زیادہ ٹیسٹ مواقع نہیں ملے۔ 6 ٹیسٹ میچ کھلانے کے بعد بھی وہ طویل طرز کے دستے کا مستقل حصہ نہیں ہیں، حالانکہ وہ اس کے حقدار ہیں۔ 2016ء کے آغاز کے ساتھ ہی کیپ ٹاؤن میں وہ انگلستان کے خلاف دوسرا ٹیسٹ کھیل رہے ہیں اور امید کی جا رہی ہے کہ نئے سال میں انہیں بھرپور مواقع دیے جائیں گے اور نہ صرف جنوبی افریقہ دنیا بھر کے کرکٹ شائقین کو یقین ہے کہ وہ اس کا بھرپور فائدہ اٹھائیں گے۔
جو برنس
آسٹریلیا کے لیے سب سے مشکل کام کیا ہو سکتا ہے؟ جی ہاں! قومی کرکٹ ٹیم کا انتخاب۔ آسٹریلیا میں عالمی معیار کے اتنے کھلاڑی بیک وقت موجود رہتے ہیں کہ بمشکل ہی کسی کو بین الاقوامی کرکٹ تک پہنچنے کا موقع ملتا ہے۔ آسٹریلیا کی اگر دو ٹیمیں بنائی جائیں اور دونوں کو بین الاقوامی سطح پر کھلایا جائے تو یقین کریں کسی بھی ٹورنامنٹ کے فائنل تک دونوں کا پہنچنا حیران کن نہیں ہوگا۔ بہرحال، ملک کی نمائندگی کے مرحلے تک پہنچنے والے کھلاڑی یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ ایک مرتبہ اگر یہ موقع ملا اور کارکردگی نہ دکھائی تو پھر دوبارہ آنا بہت مشکل ہوگا۔ ایسا ہی ایک موقع کرس راجرز کی ریٹائرمنٹ کے بعد دائیں ہاتھ سے بلے بازی کرنے والے جو برنس کو ملا ہے اور نوجوان بلے باز اس کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے عوام اور سلیکٹرز کے دلوں پر راج کر رہے ہیں۔
2015ء میں جو برنس نے 6 ٹیسٹ کھیلے اور 55 کے اوسط سے 550 رنز بنائے، جس میں ڈیوڈ وارنر کے ساتھ مسلسل تین سنچری شراکت داریاں بھی شامل ہیں۔ جس طرح کی کارکردگی برنس دکھا رہے ہیں، اس کو دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ 2016ء ان کے لیے بہت اچھا سال ثابت ہوگا اور اگر وہ ایسا کرنے میں کامیاب ہوگئے تو قومی ٹیم میں ان کی جگہ کمزور ہو ہی نہیں سکتی۔
بین اسٹوکس
جب اس فہرست کے لیے بین اسٹوکس کا انتخاب ہم کر چکے تھے، اور سطور لکھنے کا آغاز ہو چکا تھا عین اسی وقت وہ جنوبی افریقہ کے خلاف دھواں دار بلے بازی کرتے ہوئے دکھائی دیے۔ 198 گیندیں، 11 چھکے اور 30 چوکے اور ان کے ذریعے بنائے گئے 258 رنز دنیا کو یہ بتانے کے لیے کافی تھے کہ اسٹوکس حد تک خطرناک بلے باز ہیں۔
یہ اسٹوکس کی پہلی نمایاں اننگز نہیں تھی۔ انہوں نے مختصر عرصے میں خود کو اہم ترین آل راؤنڈر ثابت کیا ہے۔ مئی 2015ء میں نیوزی لینڈ کے خلاف وہ اس وقت آزمائش پر پورے اترے جب انگلستان محض 30 رنز پر 4 وکٹوں سے محروم ہو چکا تھا۔ اس کے بعد اسٹوکس نے 94 گیندوں پر 92 رنز بنا کر انگلستان کی پوزیشن بہت حد تک مضبوط کی۔ یہی نہیں بلکہ اگلی ہی اننگز میں تیز رفتار سنچری بنا کر دنیائے کرکٹ کی توجہ اپنی جانب مبذول کروائی۔ بس یہی وہ کارکردگی تھی جس کی وجہ سے انگلستان یہ مقابلہ 124 رنز سے جیتنے میں کامیاب ہوا۔
اسٹوکس صرف بلے بازی میں ہی نہیں بلکہ گیندبازی کا ہنر بھی خوب جانتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں ماضی کے آل راؤنڈر اینڈریو فلنٹوف کا جانشیں سمجھا جا رہا ہے۔
مستفیض الرحمٰن
سال 2015ء بنگلہ دیش کی کرکٹ تاریخ کا بہترین سال رہا ہے۔ پہلے پاکستان کو کلین سویپ، اس کے بعد بھارت اور جنوبی افریقہ جیسی ٹیموں کو شکست دینا ایک ایسا خواب تھا جو کبھی کسی بنگلہ دیشی کرکٹ پرستار نے نہیں دیکھا ہوگا لیکن گزشتہ سال انہوں نے بچشم خود یہ سب ہوتے ہوئے دیکھا۔ ان فتوحات کے پیچھے یقیناً ہر کھلاڑی کی محنت اور لگن تھی لیکن جو حقیقی فرق ثابت ہوا، وہ نوجوان تیز باؤلر مستفیض الرحمٰن تھے۔ انہوں نے 9 ایک روزہ میچوں میں 26 وکٹیں، دو ٹیسٹ میچوں میں چار وکٹیں اور پانچ ٹی ٹوئنٹی میچوں میں 6 وکٹیں حاصل کیں۔ نہ صرف اپنے اولین ایک روزہ بلکہ ٹیسٹ میں بھی انہوں نے میچ کے بہترین کھلاڑی کے اعزازات جیتے۔
صرف 20 سال کے مستفیض نے اپنے مختصر لیکن پُر اثر کیریئر میں جو کارکردگی دکھائی ہے، اُس کو دیکھتے ہوئے یہ پیشن گوئی کرنا ہر گز مشکل نہیں کہ وہ 2016ء میں بھی اہم ترین کھلاڑی کے طور پر ابھریں گے۔