آخری 9 وکٹیں صرف 46 رنز پر گرگئیں، بھارت کو بدترین شکست
آسٹریلیا-بھارت سیریز کے ابتدائی تینوں مقابلوں میں میزبان نے ہدف کا تعاقب کیا اور شاندار کامیابیاں سمیٹیں، لیکن دارالحکومت کینبرا کے خوبصورت میدان منوکا اوول میں جب اسٹیون اسمتھ نے ٹاس جیت کر پہلے بھارت کو بلے بازی کا موقع دیا تو یہ فیصلہ خاصا حیران کن تھا۔ کیونکہ بلے بازوں پر تکیہ کرنے والے بھارت کو طے شدہ ہدف دینا، پھر چاہے وہ کتنا ہی زیادہ کیوں نہ ہو، خطرے سے خالی نہیں تھا۔ یہیں سے امید پیدا ہو چلی کہ شاید بھارت آج میدان مار جائے، اور جب یہ امید یقین میں بدلی تب "جن پہ تکیہ تھا وہی" دغا دے گئے اور بالآخر نتیجہ 25 رنز کی شکست کی صورت میں نکلا۔
پہلے دونوں ایک روزہ مقابلوں میں روہیت شرما کی سنچریاں رائیگاں گئیں تو تیسرے میں ویراٹ کوہلی کی تہرے ہندسے کی اننگز کسی کام نہ آ سکی۔ لیکن منوکا اوول میں تو حد ہی ہوگئی۔ ویراٹ کوہلی اور شیکھر دھاون کی دھواں دار سنچری اننگز اور 212 رنز کی شراکت داری بھی بھارت کے لیے کافی ثابت نہی ہوئی۔ اس کی آخری 9 وکٹیں صرف 46 رنز کے اضافے سے گریں اور یوں آسٹریلیا چار-صفر کی برتری حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ اب اس کی نظریں صرف اور صرف کلین سویپ پر ہوں گی، جس کے لیے اسے سنیچر کو سڈنی میں ہونے والا پانچواں ایک روزہ جیتنا ہوگا۔
بھارت 349 کے بڑے ہدف کے تعاقب میں تھا، توقعات تو تھیں لیکن سوال یہ تھا کہ مسلسل تین شکستوں کے بعد بھارتی بلے باز حوصلہ مجتمع کر پائیں گے یا نہیں۔ پھر شیکھر دھاون اور ویراٹ کوہلی نے جس طرح کی بلے بازی کی، اس سے تو لگتا تھا کہ وہ سر دھڑ کی بازی لگانے آئیے ہیں۔ دوسری وکٹ کے لیے دونوں نے ڈبل سنچری شراکت داری قائم کی تو میدان میں موجود بھارتی تماشائی قبل از وقت جیت کے شادیانے بجا رہے تھے۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ آسٹریلیا تاریخ میں پہلی بار اپنے ہی میدان پر 300 سے زیادہ رنز کا دفاع کرنے میں ناکام ہوجائے گا۔ پھر نجانے کیا ہوگیا؟ 277 رنز پر جیسے ہی شیکھر دھاون کی اننگز تمام ہوئی، بھارت کے آنے والے بلے باز تو بلّا چلانا ہی بھول گئے۔ شیکھر 113 گیندوں پر دو چھکوں اور 14 چوکوں کی مدد سے 126 رنز بنانے کے بعد جان ہیسٹنگز کے ہاتھوں آؤٹ ہوئے اور اسی اوور میں انہوں نے مہندر سنگھ دھونی کو وکٹ کیپر کے ہاتھوں آؤٹ کراکے آسٹریلیا کو ایک اور کامیابی سے نوازا۔ اسی اینڈ سے جب کین رچرڈسن آئے تو انہوں نے پہلی ہی گیند پر ویراٹ کوہلی کو آؤٹ کردیا۔ اس وقت بھارت کو 11 اوورز میں صرف 71 رنز کی ضرورت تھی اور اس کی 7 وکٹیں باقی تھیں لیکن کوہلی کا آؤٹ ہونا تھا کہ آسٹریلیا کو جیت کا یقین ہونے لگا۔ کوہلی 92 گیندوں پر 106 رنز بنانے کے بعد آؤٹ ہوا، اس میں ایک چھکا اور 11 چوکے بھی شامل تھے۔
دونوں سنچری سازوں کا آؤٹ ہونا تھا کہ بھارت کی مقابلے پر گرفت کمزور ہوتی چلی گئی اور آسٹریلیا کے گیندباز مقابلے پر چھا گئے۔ یہاں تک کہ صرف آخری اوور میں پوری ٹیم 323 رنز پر ڈھیر ہوگئی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ آسٹریلیا کے صف اول کے تینوں گیندباز اس مقابلے میں نہیں کھیلے تھے یعنی نہ مچل اسٹارک، نہ جیمز پیٹنسن اور نہ ہی جوش ہیزل ووڈ۔ بھارت کا مقابلہ کین رچرڈسن اور جان ہیسٹنگز جیسے غیر معروف باؤلرز سے تھا جن کا ساتھ ناتھن لیون، جیمز فاکنر، مچل مارش اور جز وقتی گلین میکس ویل اور اسٹیون اسمتھ نے دیا۔ ان میں سے کین رچرڈسن نے پانچ وکٹیں حاصل کیں اور مرد میدان کا اعزاز بھی حاصل کیا۔ جب بھارت مقابلے پر حاوی تھا تو یہ ہیسٹنگز کی شاندار باؤلنگ ہی تھی جو آسٹریلیا کو مقابلے میں واپس لے کر آئی، اس پر وہ اس اعزاز کے واقعی حقدار تھے۔ ان کے علاوہ دو، دو وکٹیں ہیسٹنگز اور مارش کو ملیں۔
قبل ازیں آسٹریلیا نے اوپننگ بلے بازوں ڈیوڈ وارنر اور آرون فنچ کی 187 رنز کی شراکت داری کی وجہ سے زبردست آغاز لیا۔ وارنر اپنی پہلی سنچری سے صرف 7 رنز دور تھے کہ ایشانت شرما کی گیند پر بولڈ ہوگئے۔ البتہ فنچ نے اپنی ساتویں ون ڈے سنچری ضرور مکمل کی۔ انہوں نے 107 گیندوں پر اتنے ہی رنز بنائے۔ اس میں دو چھکے اور 9 چوکوں بھی شامل رہے۔
ان کے بعد آنے والے بلے بازوں نے حصہ بقدر جثہ ڈالا، اور ٹیم کو 348 رنز تک پہنچا دیا۔ ان میں کپتان اسمتھ کے 51 رنز قابل ذکر ہیں، جبکہ صرف 20 گیندوں پر انوکھے شاٹس کھیل کر 41 رنز لوٹنے والے گلین میکس ویل کا کارآمد حصہ بھی شامل رہا۔ ان کی طوفانی بیٹنگ کی بدولت آخری دو اوورز میں 30 سے زیادہ رنز بنے، جو نہ بنتے تو شاید نتیجہ مختلف ہوتا۔
بھارت کے کپتان مہندر سنگھ دھونی نے ناکامی کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا کہ وہ کمزوریوں پر جلد قابو پانے کی کوشش کریں گے۔ دھونی کا کہنا تھا کہ پانچ مقابلوں کی سیریز میں ابتدائی تینوں میچز میں شکست ہو جائے تو واپسی مشکل ہوتی ہے لیکن جس طرح آج شیکھر اور کوہلی نے بلے بازی کی ہے وہ قابل تعریف ہے۔ افسوس یہ ہے کہ باقی بلے باز اس تسلسل کو برقرار نہ رکھ سکے جو انہوں نے قائم کیا تھا اور یہی شکست کی اصل وجہ بنا۔
اب 23 جنوری کو یہ دیکھنا ہے کہ بھارت 'وائٹ واش' سے بچ پاتا ہے یا نہیں۔