جب محمد حفیظ محمد عامر کی حمایت میں کود پڑے

5 1,055

کسی بھی شعبے میں کوئی بڑا مقام حاصل کرنا شاید اتنا مشکل نہ ہو جتنا کہ اس مقام کو برقرار رکھنا۔ محمد عامر خوش قسمت تھے کہ اوائل عمری میں ہی اتنی شہرت حاصل کرلی کہ کرکٹ کے پنڈٹ انہیں مستقبل کا وسیم اکرم قرار دے رہے تھے مگر "لمحوں کی خطا سے صدیوں کی سزا پائی"۔ وہ عزت اور مقام جو حاصل کیا تھا وہ کھو گیا اور نجانے واپس بھی ملے گا یا نہیں۔

بہرحال، محمد عامر کا طویل عدالتی ٹرائل، اور اس کے بعد میڈیا ٹرائل، پھر قید کی سزا اور سب سے بڑھ کر 5 سال کی پابندی، یہ تمام مراحل مکمل ہوا لیکن ایسا لگتا ہے "ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں" کیونکہ بین الاقوامی کرکٹ میں واپسی تو ہوگئی ہے لیکن بات ختم نہیں ہوئی۔ ویلنگٹن میں پاک-نیوزی لینڈ پہلے ایک روزہ کے دوران محمد عامر کو تماشائیوں کی جانب سے سخت رویے کا سامنا کرنا پڑا۔ بلاشبہ محمد عامر ذہنی طور پر اس رویّے کے لیے تیار ہوں گے لیکن پھر بھی ایک تماشائی نے حد ہی عبور کرلی۔

جب محمد عامر فیلڈنگ کے لیے باؤنڈری لائن پر پہنچے تو ایک تماشائی نے 'نوٹ' لہراتے ہوئے عامر کو پکارنا شروع کردیا۔ یہ واقعی ایک مشکل صورت حال تھی اور اس وقت سابق کپتان محمد حفیظ آگے بڑھے اور معاملہ کو امپائر کے گوش گزار کرایا۔ یہ 'پروفیسر' کا بہت اچھا قدم تھا حالانکہ وہ عامر کی ٹیم میں واپسی کے سب سے پہلے مخالف تھے۔

تماشائی کے اس رویے کی شکایت کے بعد انتظامیہ نے سیکورٹی انچارج اور دیگر عملے کے ذریعے فوری ایکشن لیا اور اس تماشائی کو سخت انتباہ جاری کیا۔ بعد ازاں مقابلے کے خاتمے کے بعد اسے ایک مرتبہ پھر خبردار کیا گیا کہ وہ اپنا رویہ ٹھیک کرلے، ورنہ آئندہ میدان میں داخل بھی نہیں ہونے دیا جائے گا۔

یہ معاملہ تو تمام ہوا لیکن محمد حفیظ کی عزت میں مزید اضافہ ہوگیا۔ وہ اور ایک روزہ کپتان اظہر علی نے محمد عامر کی ٹیم میں شمولیت کی علانیہ مخالفت کی تھی یہاں تک کہ عامر کی شرکت پر احتجاجاً قومی تربیتی کیمپ میں ہی شریک نہیں ہوئے۔ اس سے قبل وہ بنگلہ دیش پریمیئر لیگ میں اس ٹیم کی جانب سے کھیلنے سے انکار کر چکے تھے، جس سے محمد عامر نے کھیلا۔ بعد ازاں قذافی اسٹیڈیم میں نیٹ سیشن کے دوران بھی عامر کا سامنا کرنے سے انکار کیا۔

لیکن ویلنگٹن نے محمد حفیظ نے ثابت کیا کہ پاکستانی ٹیم کی عزت و توقیر کو برقرار رکھنا ان کا نصب العین ہے۔ 'گرین شرٹ' پہنے ایک کھلاڑی کو ہتک آمیز رویے سے بچانے کے لیے عملی طور پر آگے بڑھ کر انہوں نے اپنے الفاظ کی لاج رکھی ہے۔