اعصاب شکن مقابلہ نیوزی لینڈ کے نام، پاکستان کا دامن خالی رہ گیا
پاکستان اور نیوزی لینڈ کے مابین تیسرا اور آخری ایک روزہ سخت مقابلے کے بعد بالآخر تین وکٹوں سے نیوزی لینڈ کے نام رہا۔ اس میچ میں سب کچھ تھا، زبردست باؤلنگ، بہترین بلے بازی، شاندار فیلڈنگ اور ہاں! بدترین امپائرنگ بھی کہ جس نے آخر میں فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ ہوا دراصل یہ کہ بارش سے متاثر ہونے کی وجہ سے نیوزی لینڈ کو 43 اوورز میں 263رنز کا ہدف ملا۔ نیوزی لینڈ کو آخری 5 اوورز میں 41 رنز کی ضرورت تھی جب راح علی نے چوتھی گیند پر کوری اینڈرسن کو وکٹوں کے پیچھے آؤٹ کرا دیا۔ پاکستانی کھلاڑیوں کی فلک شگاف اپیل کے باوجود امپائر بلی باؤڈن نے نفی میں سر ہلا دیا حالانکہ وہ واضح طور پر آؤٹ تھا۔ گیند اینڈرسن کے بلّے کو چھوتی ہوئی گئی تھی۔ پاکستان کے زخموں پر نمک چھڑکتے ہوئے اینڈرسن نے اگلی دونوں گیندوں پر چھکے جڑ دیے۔ بعد ازاں عرفان نے 42 ویں اوور میں شاندار باؤلنگ کے ذریعے معاملہ آخری اوور میں 6 رنز تک پہنچا دیا جس کا وہاب ریاض دفاع نہ کرسکے اور نیوزی لینڈ نے آخری اوور کی چوتھی گیند پر مچل سینٹنر کے چوکے کے ذریعے میچ اور سیریز جیت لی۔
قبل ازیں، پاکستان نے ٹاس جیت کر پہلے بلے بازی کا فیصلہ کیا اور اوپنرز کو ایک مرتبہ پھر ناکام ہوتے دیکھا۔ سست ترین آغاز کے بعد پانچویں اوور میں احمد شہزاد کی اننگز 12 رنز پر تمام ہوئی۔ ان کے ایک بھرپور شاٹ کو شارٹ مڈ وکٹ پر کھڑے مارٹن گپٹل نے کمال پھرتی سے پکڑا۔ دو گیندیں بعد ہی اظہر علی کا بلایا آ گیا۔ جو میٹ ہنری کی گیند پر سلپ میں کیچ دے گئے۔ یہ کیچ بھی گپٹل کے نام رہا۔ یوں چھٹے اوور میں صرف 20 رنز پر پاکستان کی دو وکٹیں گر چکی تھیں اور ذمہ داری ایک مرتبہ پھر محمد حفیظ اور بابر اعظم کے کاندھوں پر تھی۔ دونوں نے بخوبی اسے نبھایا بھی اور تیسری وکٹ پر 134 رنز کی بہترین شراکت داری قائم کی۔ اس وقت جب نیوزی لینڈ کے باؤلرز حاوی ہوتے دکھائی دے رہے تھے، انہوں نے بہترین بلے بازی کی۔ حفیظ نے صرف 60 گیندوں پر پانچ چھکوں اور اتنے ہی چوکوں کی مدد سے 76 رنز بنائے۔ وہ چھٹی مرتبہ چھکا لگانے کی کوشش میں کیچ آؤٹ ہوئے تو پاکستان کا اسکور 154 رنز تھا۔ پاکستان اس وقت تک بہترین مقام پر تھا جب تک شعیب ملک کریز پر موجود تھے۔ 31 اوورز میں پاکستان کا اسکور 215 رنز کو چھو رہا تھا اور اس کی سات وکٹیں بھی باقی تھیں لیکن اس کے بعد 'نظر لگ گئی'۔
شعیب ملک ٹرینٹ بولٹ کے ہاتھوں کیا آؤٹ ہوئے؟ لوئر مڈل آرڈر کے ہاتھ پیر پھول گئے۔ ملک 27 گیندوں پر 32 رنز بنانے کے بعد آؤٹ ہوئے اور کچھ ہی دیر میں بابر اعظم کی 83 رنز کی عمدہ اننگز کا بھی خاتمہ ہوگیا۔ انہوں نے ایک چھکے اور 10 چوکوں کی مدد سے 77 گیندوں پر یہ اننگز تراشی۔ آنے والے بلے بازوں میں صرف سرفراز احمد 41 رنز بنا کر کچھ مزاحمت کر سکے اور پوری ٹیم 48 ویں اوور میں 290 رنز پر ڈھیر ہوگئی۔ اندازہ لگائیے کہ 19 اوورز اور 7 وکٹیں باقی تھیں، پاکستان بہترین پوزیشن میں تھا لیکن 300 رنز کا ہندسہ عبور کرنا تو کجا وہ پورے اوورز بھی نہ کھیل سکا۔ آخری سات وکٹوں نے صرف 75 رنز کا اضافہ کیا اور یہیں سے مقابلہ نیوزی لینڈ کے حق میں جھک گیا۔
پاکستان نے خطرناک برینڈن میک کولم کی وکٹ تو جلد ہی حاصل کرلی، جو محمد عامر کی پہلی گیند پر صفر کی ہزیمت کا شکار ہوئے لیکن اس کے بعد برینڈن میک کولم اور کین ولیم سن کی وہی پرانی جوڑی پاکستان کے باؤلرز کی راہ میں پہاڑ کی طرح حائل ہوگئی۔ دونوں نے دوسری وکٹ پر 159 جوڑ کر پاکستان کو مقابلے کی دوڑ سے تقریباً باہر کردیا۔ ایسا لگتا تھا کہ گزشتہ مقابلوں کی طرح یہ بھی مکمل طور پر یکطرفہ ہوگا۔ لیکن جب امید کی کوئی کرن دکھائی نہ دیتی تھی، تب پاکستان نے مقابلے میں واپس کی۔ پہلے اظہر علی نے خود مارٹن گپٹل کو آؤٹ کیا۔ انہوں نے 81 گیندوں پر 82 رنز بنائے۔ اور کچھ ہی دیر میں کین ولیم سن کی 84 رنز کی اننگز بھی اظہر علی ہی کے ہاتھوں ختم ہوئی۔ کپتان کی جزوقتی باؤلنگ نے پاکستان کو مقابلے میں واپس لانے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس کے بعد آگے کا کام محمد عامر، شعیب ملک، وہاب ریاض اور محمد عرفان نے انجام دیا۔ عامر جو پہلے ہی میک کولم کی قیمتی وکٹ لے چکے تھے، خطرناک ہنری نکلس کو ایل بی ڈبلیو کرنے میں کمیاب ہئے جبکہ شعیب ملک نے گرانٹ ایلیٹ کو آؤٹ کرکے تہلکہ مچا دیا۔ نیوزی لینڈ 165 پر ایک کھلاڑی آؤٹ کی مضبوط پوزیشن سے 210 رنز تک آدھی ٹیم سے محروم ہوچکا تھا۔ یہاں اگر امپائر بلی باؤڈن پاکستان کے حق میں فیصلہ کر دیتے تو کوری اینڈرسن کی کہانی بھی تمام ہو جاتی اور شاید پاکستان میچ بھی جیت جاتا لیکن اس فیصلے کے نتیجے میں اینڈرسن کی 29 گیندوں پر 35 رنز کی طوفانی اننگز فیصلہ کن ثابت ہوئی۔ گو کہ پاکستان نے لیوک رونکی اور اینڈرسن کی وکٹیں ضرور حاصل کیں لیکن وہ نیوزی لینڈ کو آخری اوور میں ہدف حاصل کرنے سے نہ روک پایا۔
پاکستان کی جانب سے محمد عامر نے بہت عمدہ باؤلنگ کی۔ انہوں نے 9 اوورز میں صرف 39 رنز دے کر دو وکٹیں حاصل کیں جبکہ اظہر نے 37 رنز کے عوض دو کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا۔ وہاب ریاض اور محمد عرفان نے ایک، ایک شکار کیا لیکن دونوں کافی مہنگے ثابت ہوئے۔ راحت علی، گو کہ اینڈرسن کی وکٹ حاصل کرسکتے تھے، لیکن وہ ان کے نصیب میں نہیں تھی۔ اس کے علاوہ انہوں نے 7 اوورز میں 54 رنز کی مار بھی کھائی۔
یوں نیوزی لینڈ نے تین مقابلوں کی سیریز دو-صفر سے جیت کر پاکستان کو ٹی ٹوئنٹی کے بعد ایک روزہ میں بھی شکست سے دوچار کیا۔ مارٹن گپٹل کو میچ کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا۔
اب خالی دامن پاکستان کے کھلاڑی سپر لیگ کے ذریعے اعتماد بحال کرنے کی کوشش کریں گے تاکہ اگلے اہم بین الاقوامی مقابلوں کے لیے تیاری پکڑ سکیں۔ پاکستان کو فروری کے آخر میں ایشیا کپ اور اس کے بعد اگلے ماہ ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کھیلنا ہے۔ یہ دونوں ٹی ٹوئنٹی ہوں گے اس لیے اظہر علی کے بجائے شاہد آفریدی کا امتحان زیادہ بڑا ہے۔