مرکزی معاہدہ بحال نہ ہوا تو انضباطی کمیٹی کے روبرو پیش نہیں ہوں گا؛ شاہد آفریدی

0 1,050

شاہد آفریدی نے کہا ہے کہ اگر بورڈ دو دن کے اندر اندر ان کے مرکزی معاہدہ (سینٹرل کانٹریکٹ) اور این او سی کی منسوخی واپس نہیں لیتا تو وہ انضباطی کمیٹی کے روبرو پیش نہیں ہوں گے۔

بغیر سماعت کے مرکزی معاہدہ اور این او سی منسوخ کرنا انصاف کے تقاضوں کے خلاف ہے؛ وکلاء شاہد آفریدی

کوچ اور ٹیم انتظامیہ کے ساتھ اختلافات کے باعث شاہد آفریدی کو اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کرتے ہوئے ان کا مرکزی معاہدہ اوراین او سی منسوخ کرتے ہوئے 8 جون کو پاکستان کرکٹ بورڈ کی انضباطی کمیٹی کے روبرو پیش ہونے کا حکم دیاگیا تھا۔

انضباطی کمیٹی کے روبرو پیش ہونے کے لیے شاہد آفریدی 5 جون کی شب کراچی پہنچے، جہاں کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر ہزاروں افراد نے ان کا والہانہ استقبال کیا۔ اور تمام رات ان کی رہائش گاہ کے باہر ہزاروں تماشائیوں کا جھمگٹا لگا رہا۔

سوموار کو کراچی پریس کلب میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے شاہد خان آفریدی اور ان کے وکلاء سید علی ظفر اور محمود مانڈوی والا نے کہا کہ اگر انصاف کے تقاضوں کو پورا نہیں کیا گیا تو وہ ان کے مؤکل کارروائی میں شریک نہیں ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ سماعت سے قبل این او سی اور مرکزی معاہدہ منسوخ کرنا انصاف کے تقاضوں کے خلاف ہے۔

شاہد آفریدی کا کہنا تھا کہ مسئلہ قیادت کا نہیں بلکہ انصاف کا ہے، قیادت کبھی ان کے لیے مسئلہ نہیں رہی، وہ ماضی میں بھی جونیئر کھلاڑیوں کی قیادت میں کھیل چکے ہیں اور اب بھی وہ جونیئر کھلاڑیوں کی زیر قیادت کھیلنے کو تیار ہیں، بورڈ چاہے اسد شفیق کو کپتان بنائے یا عمر اکمل کو ان کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ شاہد خان پاکستان کرکٹ بورڈ کے کھلاڑیوں کے ساتھ روا رکھے رویے سے خوش نہیں تھے۔

دوسری جانب پاکستان کرکٹ بورڈ نے مذکورہ پریس کانفرنس سے چند گھنٹے قبل اپنا اعلامیہ جاری کیا، جس کے مطابق انہوں نے آفریدی کو سماعت کے موقع پر اپنے وکلاء کے ساتھ پیش ہونے کی اجازت دی ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں یہاں جھگڑنے کے لیے نہیں آیا ہوں، میں ایک کھلاڑی ہوں اور کھیلنا چاہتا ہوں اور اپنا حق چاہتا ہوں۔ اگر وہ مجھے پاکستان کے لیے کھیلتے نہیں دیکھنا چاہتے تو کم از کم مجھے ڈومیسٹک کرکٹ اور کاؤنٹی تو کھیلنے دیں۔

شاہد آفریدی نے اس تاثر کو غلط قرار دیا کہ وہ معاملے کو سیاسی رنگ دے کر فضاء کو اپنے حق میں کر رہے ہیں۔ شاہد آفریدی اپنے خلاف کارروائی ہونے کے بعد بلاول زرداری اور نواز شریف سے رابطہ کر چکے ہیں۔