کرکٹ انتظامیہ کا عروج اور کھیل کا زوال

1 1,172

جب انگلینڈ ورلڈکپ 2015ء کے کوارٹر فائنل سے قبل ہی شکست کھا کر ایونٹ سے باہر ہوا تو انگلینڈ اینڈ ویلز کرکٹ بورڈ (ای سی بی) سمجھ گیا تھا کہ اب تبدیلیوں کا وقت آ گیا ہے۔

یہ عمل گزشتہ آٹھ سال سے بورڈ کے سربراہ کے عہدے پر فائز جائلز کلارک کے استعفے سے شروع ہوا اور مینیجنگ ڈائریکٹر پال ڈاؤٹن اور ہیڈ کوچ پیٹرمورس دونوں انتظامی اہلکاروں کو ایونٹ میں انگلینڈ کی عبرتناک شکست کا مرکزی ذمہ دار قرار دیتے ہوئے عہدے سے ہٹا دیا گیا۔

ای سی بی کے منصوبہ ساز نئے چیئرمین کولن گریویز کی زیر سرپرستی انگلینڈ کرکٹ کو اعلیٰ سطح کے پیشہ ورانہ معیار دلانے کے مشکل کام میں مصروف ہوگئے۔ بہت سارے سنجیدہ منصوبے، حکمت عملی اور منصوبہ سازی کو عمل میں لایا گیا۔ انگلش کرکٹ کی شہ رگ کو پکڑتے ہوئے ان منصوبہ سازوں نے محسوس کیا کہ کپتان، کھلاڑیوں اور کوچنگ کے عملے کو ایسی اتھارٹی کے سامنے جوابدہ بنایا جائے جو وسیع تجربے کی حامل، قابل احترام شخصیت ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی انتظامی تحریکی صلاحیتیں بھی رکھتی ہو۔

اس کے فوراً بعد ڈائریکٹر کرکٹ کا عہدہ تخلیق کر کے سابق کپتان اینڈریو اسٹراس کو اس پر فائز کیا گیا۔ ای سی بی کے چیف ایگزیکٹو ٹام ہیریسن کی جانب سے اسٹراس کو ٹیم کی تیاری کے لیے کھیل کے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ اور وسیع تجربے کا حامل شخص قرار دیا گیا اور رگبی سے کئی سالوں قبل کرکٹ میں لیے گئے ہائی پرفارمنس مینیجر کا عہدہ ان کے حوالے کیا گیا۔

دس مہینے کے عرصے میں انگلینڈ ٹیم کی فتوحات واضح کررہی ہیں کہ اسٹراس کی کارکردگی کس قدر شاندار ہے۔ انگلینڈ نے زمین سے اٹھتے ہوئے ورلڈکپ کی شکست کو پس پشت ڈال کر تمام مخالف ٹیموں کے لیے ایک خطرناک حریف کی شکل اختیار کر لی۔

مئی 2015ء سے لے کر اب تک انگلینڈ نے ٹیسٹ کرکٹ میں نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کو ہوم گراؤنڈ میں ہرایا اور جنوبی افریقہ کو ان کے گھر میں شکست دی۔ اس کے علاوہ وہ ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی میں بڑی ٹیموں نیوزی لینڈ، آسٹریلیا اور بالخصوص پاکستان کے خلاف متحدہ عرب امارات میں اپنے لیے ناسازگار ماحول کے باوجود شکست دی۔ اس طرح کی کامیابیوں نے انگلینڈ کی ورلڈ کپ میں شکست کی ناخوشگوار یادیں بھلا دی ہیں اور وہ ایک بار پھر صف اول ٹیم بن رہے ہیں۔

نیوزی لینڈ بھی جنوبی افریقہ کے خلاف 2013ء کے خوفناک دورے کے بعد اسی طرح کامیابی کی جانب گامزن ہے اور آج ان کا جارحانہ انداز کھیل انہیں ناقابل یقین کامیابیوں سے ہمکنار کرا رہا ہے۔

تاہم یہ ایک انتہائی تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان کرکٹ کے ناخداؤں کے پاس کھیل بہتر کرنے یا اس میں موجود خامیوں کو دور کرنے کے لیے وقت نہیں ہے۔ وہ بورڈ کے پیٹرن ان چیف کی جانب سے دی گئی اپنی آرام دہ نشستوں پر بے فکر بیٹھے ہیں، اور اس ایجنڈے پر کام کرنے میں مصروف ہیں جو بنیادی طور پر ملکی کرکٹ کے خرچے پر اپنے کام کرنا اور پیسہ بنانا ہے۔

najam-sethi-shahryar-khan-ashraf-ghani

جہاں ایک طرف چیئرمین شہریارخان بیانات اور جوابی بیانات کی خیالی دنیا میں جی رہے ہیں تو ایگزیکٹیو کمیٹی کے چیئرمین نجم سیٹھی بھی اپنے ارد گرد کے لوگوں کو حربوں سے بے وقوف بنا رہے ہیں اور ان کی پی سی بی میں طویل عرصے سے موجودگی سے پاکستان کرکٹ حقیقی معنوں میں کچھ حاصل نہیں کر پایا۔

چیف سلیکٹر ہاروں رشید کے حوالے سے جتنا کم بولا جائے اتنا بہتر ہے۔ سابق بلے باز نے ٹیم انتظامیہ کی تابعداری میں اپنے دفتر کو مذاق بنا کر رکھا ہوا ہے اور حال ہی میں مالی فوائد سے بھرپور پاکستان سپر لیگ کے کوچنگ دستے میں شمولیت کے لیے آدھمکے۔

ہیڈ کوچ وقاریونس کوچنگ کے دوسرے دور میں کھلاڑیوں کو متحرک کرنے میں مایوس کن طور پر ناکام رہے۔ کھیل کے عظیم کھلاڑیوں میں سے ایک، جن کے بارے میں ہرکوئی چاہے گا کہ وہ کھلاڑیوں کے ساتھ باپ کی طرح پیش آتے ہوئے ان میں خود اعتمادی اور بھروسہ پیدا کرتے ہوئےڈریسنگ روم میں مقابلے کا ماحول پیدا کرے۔ اس کے باوجود وقار کے لیے اپنی انا کو پس پشت ڈال کر اس سے آگے دیکھنا بہت مشکل ہے جبکہ کھلاڑیوں کے ساتھ شخصی تناؤ، بے جا تجربات اور بیٹنگ نمبر میں تبدیلی سے ٹیم کا مورال بھی گر رہا ہے۔

انگلینڈ کے آسٹریلوی نژاد کوچ ٹریور بیلس اور نیوزی لینڈ کے مائیک ہیسن سے موازنہ کریں تو دونوں نے بین الاقوامی سطح پر اپنے ملکوں کی نمائندگی نہیں کی، انہوں نے اپنی ٹیموں کو پے در پے شکستوں سے نکال کر فاتحین عالم میں تبدیل کردیا۔ ان کی کامیابی بہترین انتظامی اور اندرونی صلاحیت کی عکاس ہے۔ اس کے ساتھ ہر وقت پختہ ذہنیت کے ساتھ اپنے جذبات کو ٹیم کے فیصلوں پر سوار ہونے سے بچاتے اور کپتان پر مکمل بھروسہ کرتے ہیں۔

ہیسن نے موجودہ کیوی ٹیم کے "کلچر" کو 2013ء کے مقابلے میں یکسر بدل دیا ہے۔ جب دوسال قبل جنوبی افریقہ نے ایک ٹیسٹ میں نیوزی لینڈ کی اننگز کو صرف 45 رنز پر سمیٹ دیا تھا۔ اپنے ایک تازہ انٹرویو میں انہوں نے کہا تھا کہ ٹیم میں انفرادی کارکردگی کے بجائے مشترکہ کوششوں کے کلچر کو پروان چڑھا رہے ہیں۔

ہیسن نے جو کچھ کہا وہ کوئی آسمانی چیز نہیں ہے تاہم وقار یونس، مشتاق احمد اور دیگر ٹیم کی شکستوں کے ساتھ نمایاں ہو رہے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اکثر اوقات ان میں عام سوجھ بوجھ بھی مفقود ہوچکی ہے۔

مسئلے کی جڑ یہ ہے کہ پی سی بی اور ٹیم انتظامیہ پاکستان کرکٹ کو غلط زاویے سے دیکھتے رہے ہیں۔ جب ورلڈ ٹی ٹوئنٹی صرف پانچ ہفتوں کی دوری پر ہے، ہم اب بھی پانچ سال پیچھے ہیں اور ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی کی عالمی کرکٹ کی سب سے غیر مستقل ٹیم کے طور پھنسے ہوئے ہیں۔

اس پورے منظرنامے کا سب سے مایوس کن پہلو یہ کہ پاکستان کرکٹ میں چاہے کسی کا کتنا ہی بڑا گناہ کیوں نہ ہو، کوئی کسی کے سامنے جوابدہ نہیں ہے۔ ہرکوئی پی سی بی کے اہلکاروں سے لے کر ٹیم انتظامیہ، کپتان اور کھلاڑی اپنے راستے میں خوش ہیں۔ یہ صرف میڈیا ہے جس سے وہ خوف کھاتے اور کچھ احتساب ہوتا ہے اور اسی لیے مناسب یہی ہے کہ میڈیا اس سختی کو برقرار رکھے۔

یہ تحریر ڈان کے اسپورٹس ایڈیٹر رِشاد محمود نے لکھی ہے اور ڈان نیوز انتظامیہ کی اجازت سے کرک نامہ پر شائع کی گئی ہے.