شارجہ نے اپنا حصہ ادا کردیا، اب ذمہ داری دبئی پر

0 1,084

پاکستان سپر لیگ اب ایک مرتبہ پھر دبئی میں واپس آ چکی ہے اور آتے ہی کیا شاندار مقابلہ کھیلا گیا ہے۔ بلاشبہ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز اور لاہور قلندرز کا مقابلہ پی ایس ایل کے پہلےسیزن کے بہترین مقابلوں میں سے ایک تھا اور یہی وہ مقابلہ تھا جو دبئی کو درکار تھا۔ یہاں ابتدائی مقابلے انتہائی سست، دھیمے اور زیادہ تر یکطرفہ تھے کہ جس کے نتیجے میں پاکستار کرکٹ انتظامیہ کو تنقید کا نشانہ بھی بننا پڑا لیکن شارجہ نے لاج رکھ لی۔ ایک ہفتے تک تاریخی میدان میں ہونے والے مقابلوں میں نہ صرف سنسنی تھی، بلکہ چوکے اور چھکے بھی خوب لگے اور تماشائیوں کے تو کیا کہنے۔ تبھی کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے کیون پیٹرسن نے کہا کہ شارجہ کرکٹ کے لیے ایک شاندار جگہ ہے۔

تماشائیوں کے لحاظ سے دبئی اب تک پی ایس ایل انتظامیہ کے لیے ایک مایوس کن جگہ رہی ہے۔ افتتاحی تقریب سے لے کر اب تک شاید ہی کوئی مقابلہ ہو جس میں 'ہاؤس فل' ہو۔ یہ انتظامیہ کی کمزوری ہے یا دبئی کے عوام کی عدم دلچسپی، لیکن جو بھی وجہ ہے بہرحال نتیجہ یہ ہے کہ عوام کی بہت کم تعداد میچز دیکھنے اسٹیڈیم پہنچی ہے اور آج کوئٹہ اور لاہور کا یہ شاہکار مقابلہ بھی چند چند سو تماشائیوں نے دیکھا۔

دبئی اسپورٹس سٹی کا کرکٹ اسٹیڈیم بلاشبہ شاہکار ہے، اتنے خوبصورت میدان میں تا حد نگاہ صرف نیلی کرسیاں نظر آنا ایک مایوس کن منظر ہے۔ جس کی کئی وجوہات ہیں۔ ایک تو پہلے مرحلے میں یہاں کی وکٹ بہت سست رہی ہے۔ ٹی ٹوئنٹی میں عوام اس لیے آتے ہیں تاکہ وہ زوردار چھکے اور چوکے دیکھیں مگر اسپن باؤلرز کے لیے حیرت انگیز طور پر سازگار حالات نے بلے بازوں کو کھل کر کھیلنے کا موقع ہی نہ دیا یہی وجہ ہے کہ دبئی میں زوردار کرکٹ نہیں کھیلی گئی اور جوش کا فقدان نظر آیا۔

شارجہ میں ہونے والے تقریباً تمام مقابلوں میں تماشائیوں کی تعداد حوصلہ افزا رہی جبکہ اختتامِ ہفتہ پر تو تل دھرنے کی جگہ نہیں دکھائی دی
شارجہ میں ہونے والے تقریباً تمام مقابلوں میں تماشائیوں کی تعداد حوصلہ افزا رہی جبکہ اختتامِ ہفتہ پر تو تل دھرنے کی جگہ نہیں دکھائی دی

لیکن جیسے ہی پی ایس ایل شارجہ پہنچا، رنگ، ماحول، حالات سب بدل گئے۔ گو کہ شہر میں عوام کو متوجہ کرنے کے لیے شاہد آفریدی، کرس گیل یا کیون پیٹرسن کے دیوہیکل بورڈز آویزاں نہیں تھے۔ حالانکہ چند سال قبل انڈین پریمیئر لیگ کے موقع پر ہر طرف آئی پی ایل کا سماں محسوس ہو رہا تھا۔ یہاں تو یہ حال تھا کہ اسٹیڈیم کے گرد ایک بورڈ تھا، جس پر سچن تنڈولکر مسکرا رہے تھے۔ حقیقت یہ تھی کہ اگر پی ایس ایل شارجہ کو بھی متوجہ نہ کر پاتی تو اس کی ناکامی میں کوئی شبہ نہ رہ جاتا۔ بہرحال، پہلا مقابلہ بدھ کے روز تھا، یعنی توقعات کم تھیں اور تناؤ بہت زیادہ۔ یہ ایک عام دن تھا اور جیسے ہی مقابلہ شروع ہوا تو آدھا اسٹیڈیم بھرا ہوا تھا، جی ہاں! آدھا خالی نہیں، آدھا بھرا ہوا کیونکہ ہم حوصلہ افزا بات کریں گے۔ اس کے بعد تو گویا ماحول بنتا چلا گیا۔ اگلے چند مقابلوں میں تو تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی اور ہزاروں افراد میدان سے باہر ٹکٹ ملنے کی تمنا لیے کھڑے دکھائی دیے۔ "روایتی حریف" کراچی اور لاہور کے درمیان مقابلے نے بھی خوب ماحول باندھا۔

پشاور زلمی کے کپتان شاہد آفریدی نے کہا کہ شارجہ میں بڑی تعداد میں تماشائیوں کی آمد کرکٹ کے لیے بہت فائدہ مند ہے۔ ہمارے نوجوان ڈومیسٹک مقابلے خالی کرسیوں کے سامنے کھیلتے ہیں، اب جب زیادہ توقعات اور زيادہ دباؤ میں کھیلیں گے تو انہیں زیادہ اعتماد حاصل ہوگا۔

پاکستان سپر لیگ نے وطن میں ٹیلی وژن ریٹنگز بھی خوب لوٹی ہیں۔ ہر طرف پی ایس ایل کا ہنگامہ ہے لیکن ایک بہترین لیگ کے انعقاد کے لیے میدان میں تماشائیوں کا ہونا بہت بہت ضروری ہے۔اگر یہ مقابلے پاکستان میں کھیلے جاتے تو بلاشبہ ہر میچ 'ہاؤس فل' ہوتا۔ اصل میں ماحول اور کرکٹ کا بہترین نظارہ بنتا ہی اس وقت ہے جب ہزاروں تماشائیوں کا شور ہر گیند کے ساتھ اٹھے، ہر چھکے کے ساتھ بلند ہو، ہر ہوا میں اٹھتی ہوئی گیند کے ساتھ ہزاروں تھمتی ہوئی سانسوں کی آواز سنائی دے یا کسی شاندار کیچ کے نتیجے میں فلک شگاف نعروں کی صدا۔ بہرحال، شارجہ نے اپنا حصہ ادا کردیا اب ذمہ داری ایک مرتبہ پھر دبئی پر ہے کہ وہ 23 فروری کو فائنل تک اس ماحول کو بنا کر رکھے کہ جو شارجہ نے مرتب کیا ہے۔