پی ایس ایل سے "قلندروں" کا اخراج، ایک سبق سب کے لیے
پاکستان سپر لیگ تمام تر سنسنی خیزیوں اور رعنائیوں کے بعد اب اپنے حتمی مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔ 'دل پر پتھر رکھ کر' ہم نے ایک ٹیم کا اخراج برداشت کیا ہے۔ پہلے سیزن کی مہنگی ترین ٹیموں میں سے ایک، دنیائے ٹی ٹوئنٹی کے دو بڑے ستاروں کرس گیل اور ڈیوین براوو کی ٹیم، لاہور قلندرز 'پلے-آف' مرحلے تک نہیں پہنچ سکی۔
لاہور کے اخراج کو 'المیہ' سمجھا جائے یا 'نوشتۂ دیوار' کہا جائے؟ اگر ہم سے پوچھیں گے تو ہم دوسرے جواب کا انتخاب کریں گے۔ وجہ؟ کیونکہ لاہور قلندرز نے ٹیم کے انتخاب میں جو بنیادی غلطیاں کی تھیں، وہی اس کی شکست کا سبب بنیں۔ پھر کچھ ہاتھ قسمت کا بھی رہا۔ قلندرز کو لیگ کے آغاز سے پہلے ہی دو دھچکے ایسے لگے، جس نے اس کو ٹورنامنٹ کی کمزور ترین ٹیم بنا دیا۔ ایک یہ کہ پاکستان کے بہترین باؤلر یاسر شاہ ڈوپ ٹیسٹ ناکام ہونے کی وجہ سے لیگ سے باہر ہوگئے اور جو کسر رہ گئی تھی وہ بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے مستفیض الرحمٰن کی عدم شرکت سے پوری ہوگئی۔ یوں لاہور جو باؤلنگ کے معاملے میں پہلے ہی کمزور تھا، مکمل طور پر بے دست و پا ہوگیا۔
یاسر اور مستفیض کی عدم موجودگی میں باؤلنگ کی مکمل ذمہ داری دو بالکل نوجوان باؤلرز پر آ گئی۔ 21 سالہ ضیاء الحق اور 22 سالہ احسان عادل، جنہوں نے اپنی صلاحیتوں سے کہیں بڑھ کر کارکردگی دکھائی لیکن یہ ان کے لیے ممکن ہی نہیں تھا کہ وہ دیگر ٹیموں میں موجود بلے بازوں کو روک پاتے۔ خاص طور پر جب معاملہ شارجہ پہنچا تو صورت حال ان کی پہنچ سے دور ہوتی چلی گئی۔
بلے بازی میں بلاشبہ لاہور سب سے مضبوط دستہ تھا۔ کرس گیل، عمر اکمل، کیمرون ڈیلپورٹ، صہیب مقصود اور اظہر علی کے ساتھ انہوں نے اس شعبے میں اپنی صلاحیت منوائی بھی۔ جیسا کہ پی ایس ایل کے دو بڑے ہدف انہوں نے ہی کھڑے کیے لیکن بدقسمتی سے دونوں مرتبہ ان کے باؤلرز دفاع نہ کرسکے۔ کوئٹہ کے خلاف تو 201 رنز بھی لاہور کے باؤلرز کے لیے بچانا ناممکن ہوگئے اور گلیڈی ایٹرز کے محمد نبی نے آخری اوور میں شکست دے کر لاہور کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ پھر حتمی مقابلے میں پشاور کے خلاف بھی بالادست مقام حاصل کرنے کے باوجود 'لاہوری' گیندباز حتمی ضرب نہ لگا سکے اور بریڈ ہوج کی طوفانی اننگز نے انہیں نہ صرف میچ ہرایا بلکہ لیگ کے اکھاڑے سے بھی باہر پھینک دیا۔
اگر یہ کہا جائے کہ باؤلنگ میں کمزوری کے ساتھ ساتھ بدقسمتی نے بھی لاہور کو باہر کرنے میں اہم کردار ادا کیا تو بے جا نہ ہوگا۔ یاسر اور مستفیض کا نہ کھیلنا، اور پھر اجنتھا مینڈس کا ساتھ اس وقت میسر آنا کہ جب ابتدائی مقابلے ختم ہو چکے تھے جہاں اسپنرز کو بہت مدد حاصل تھی۔
بہرحال، اب لاہور باہر ہو چکا ہے اور اس میں کئی ٹیموں کے لیے سبق ہے، خاص طور پر کراچی کے لیے کہ جس کے لیے معاملہ الٹا دکھائی دیتا ہے کہ جس کے پاس محمد عامر اور سہیل تنویر کی صورت میں دو باؤلرز تو اچھے موجود ہیں لیکن بیٹنگ میں سوائے روی بوپارا کے کوئی اور جم نہیں پا رہا۔ اب کیونکہ قسمت اسے پلے آف مرحلے میں لے آئی ہے اس لیے کراچی کو اس موقع کا بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے۔ اس کے سامنے فائنل تک پہنچنے کا ایک ہی راستہ ہے، بیٹسمینوں کا کارکردگی دکھانا۔ جیمز ونس، لینڈل سیمنز، شعیب ملک اور مشفق الرحیم کو بوپارا کا پورا ساتھ دینا ہوگا اور باؤلنگ میں جم کر کارکردگی دکھانا ہوگی ورنہ اب ایک شکست ہی کراچی کو باہر کرنے کے لیے کافی ہوگی۔