آسٹریلیا نے میک کولم کے الوداعی رنگ میں بھنگ ڈال دیا
دو سال قبل تک ٹیسٹ میں بھی آسٹریلیا کا راج تھا، لیکن پاکستان کے ہاتھوں مایوس کن شکست اور پھر بتدریج خراب کارکردگی نے اس سے یہ مقام چھین لیا۔ لیکن قوی عزائم اور جارحانہ حکمت عملی کی بدولت نیوزی لینڈ کے خلاف دو ٹیسٹ سیریز میں کلین سویپ کرنے کے بعد آسٹریلیا ایک مرتبہ پھر درجہ بندی میں پہلے نمبر پر آ گیا ہے۔ بلیک کیپس کے کپتان برینڈن میک کولم کا الوداعی ٹیسٹ یادگار نہ بن سکا جن کی 'تیز ترین ٹیسٹ سنچری' کا ریکارڈ بھی نیوزی لینڈ کو 7 وکٹوں کی شکست اور وائٹ واش کی ہزیمت سے نہ بچا سکا۔
201 رنز کے ہدف کے تعاقب میں آسٹریلیا آخری دن کھانے کے وقفے کے کچھ ہی دیر بعد ہدف کو جا پہنچا اور یوں 26 سال سے نیوزی لینڈ کے ہاتھوں کسی بھی ٹیسٹ سیریز میں شکست نہ کھانے کے ریکارڈ کو برقرار رکھا۔ ربع صدی سے زیادہ عرصے میں آسٹریلیا کو اپنے قریبی 'پڑوسی' کے ہاتھوں صرف تین ٹیسٹ مقابلوں میں شکست ہوئی ہے۔
ایک روزہ سیریز میں شکست کے بعد اندازہ تھا کہ کم تجربہ کار آسٹریلیا کو 'بلیک کیپس' کے ہاتھوں ٹیسٹ سیریز میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا لیکن اسٹیون اسمتھ کی قیادت میں باکمال کارکردگی دکھاتے ہوئے آسٹریلیا نے سارے اندازے غلط ثابت کردیے۔
کرائسٹ چرچ ٹیسٹ کی اہمیت اس لیے بھی زیادہ تھی کہ یہ نیوزی لینڈ کے کپتان برینڈن میک کولم کے بین الاقوامی کیریئر کا آخری مقابلہ تھا اور انہوں نے اس میچ کیا ہی شاندار آغاز لیا۔ صرف 54 گیندوں پر سنچری بنا کر تاریخ کی تیز ترین سنچری کا 30 سال پرانا ریکارڈ توڑ دیا۔ آسٹریلیا دباؤ کا شکار محسوس ہوا لیکن جو برنس اور اسٹیون اسمتھ کی سنچریوں کی بدولت مقابلے پر بھرپور گرفت لے لی۔ پہلی اننگز میں دونوں بلے بازوں نے بالترتیب 170 اور 138 رنز بنائے۔ تیسری وکٹ پر ان کی 289 رنز کی شراکت داری نے میزبان کی کمر ہی توڑ دی۔ آسٹریلیا پہلی اننگز میں 505 رنز بنا کر 135 رنز کی برتری حاصل کرنے میں کامیاب ہوا۔
دوسری اننگز میں گوکہ نیوزی لینڈ نے کین ولیم سن کے 97 اور میٹ ہنری کے 66 رنز کی مدد سے 335 رنز بنائے لیکن خسارے کی وجہ سے ہدف سکڑ کر صرف 201 رہ گیا۔ جس کے دفاع میں نیوزی لینڈ کے گیندبازوں میں دم خم نہ دکھائی دیا۔ آسٹریلیا حالات کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے باآسانی صرف 3 وکٹوں کے نقصان پر ہدف تک پہنچ گیا۔
جو برنس کو 170 اور 65 رنز کی شاندار اننگز کھیلنے پر میچ کے بہترین کھلاڑی کا اعزاز ملا۔
آسٹریلیا کے کھلاڑیوں کے چہرے جہاں شاندار فتح کے بعد مطمئن اور شاداں تھے وہیں نیوزی لینڈ کے کھلاڑیوں اپنے کپتان کو فاتحانہ انداز میں الوداع نہ کہنے پر مایوس دکھائی دیے۔