مصباح تجھے سلام!
میدان جنگ ہو یا زندگی کا، گرنے کو ہمیشہ بڑا مسئلہ سمجھا جاتا ہے لیکن حقیقت میں گرنے سے زیادہ بڑا مسئلہ گر کر نہ اٹھنا ہے۔ جو گر کر دوبارہ کھڑا ہو اور میدان بھی مار لے اسے 'مرد میدان' کہتے ہیں۔ مصباح الحق نے خود کو کرکٹ کا 'مرد میدان' ثابت کرکے دکھایا ہے۔ آٹھ سال پہلے جوہانسبرگ میں بھارت ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کا پہلا اعزاز جیتنے کا جشن منا رہا تھا اور مصباح مایوسی کی تصویر بنے گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھے تھے لیکن 41 سال کی عمر میں متحدہ عرب امارات میں مصباح کی فاتحانہ دوڑ نے ثابت کیا ہے کہ مصباح جھکے ضرور لیکن ہمت نہیں ہاری اور آج پاکستانی تاریخ کے سب سے بڑے ہیرو بن گئے ہیں۔
مصباح الحق نے اپنے ٹی ٹوئنٹی کیریئر کا آغاز اس وقت کیا، جب عموماً کھلاڑی ریٹائرمنٹ کے بارے میں سوچنا شروع کردیتے ہیں۔ 33 سال کی عمر میں جب انہوں نے ورلڈ ٹی ٹوئنٹی 2007ء کے فائنل میں پاکستان کو روایتی حریف بھارت کے خلاف ہاری ہوئی بازی جتوانے کی کوشش کی۔ قسمت ان کے ساتھ نہیں تھی، وہ آخری قدم پر ناکام ہوئے اور بھارت ورلڈ چیمپئن بن گیا۔ بس یہی مصباح کا قصور قرار پایا۔ ہر طرف سے ان پر تنقید کے نشتر برسنے لگے۔ لیکن مصباح نے مایوس ہو کر بیٹھنے کے بجائے دوبارہ قدم جمائے اور نئے عزم کے ساتھ کرکٹ کھیلنے شروع ہوگئے۔ آج وہ ایک عظیم مثال بن چکے ہیں۔
پھر کسی فلمی کہانی کی طرح 23 فروری 2016ء کو اختتام ہوا۔ پاکستان سپر لیگ کا پہلا فائنل کہ جسے مصباح نے آغاز ہی میں عالمی کپ جیسی اہمیت کا حامل قرار دیا تھا۔ کسی اور نے نہیں بلکہ مصباح نے فاتحانہ شاٹ لگایا اور حیران کن طور پر اسلام آباد یونائیٹڈ اس تاریخی لیگ کا پہلا چیمپئن بن گیا۔ مصباح کو اس کامیابی کی اتنی ہی ضرورت تھی جتنی پاکستان کو لیگ کی کامیابی کی۔ یہ محض ایک جیت نہیں تھی، یہ ماضی کے تمام "داغوں" کو دھونا تھا، مصباح کا ایسا کارنامہ جو مدتوں یاد رکھا جائے گا۔
تاریخی مقابلے کے بعد پریس کانفرنس میں ایک صحافی نے سوال کیا کہ کیا 'ٹک ٹک' کا داغ وہ ہمیشہ کے لیے مٹا چکے ہیں؟ مصباح نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ میرا ماننا ہے کہ جب آپ کو خود پر یقین ہو، آپ جو کرنا چاہتے ہوں وہ کر دکھا سکتے ہوں تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ لوگ آپ کا کیا نام رکھتے ہیں۔ "میں آپ کو بتا نہیں سکتا کہ میں آج کتنا خوش ہوں۔ ایک ایسی لیگ کا کامیاب انعقاد سب کی خواہش تھی۔ پھر ایسا ہوا اور ہماری ٹیم ٹائٹل جیت گئی۔ اس سے زیادہ شاندار ہو نہیں سکتا۔"
مصباح اور اسلام آباد یونائیٹڈ کے لیے یہ بڑی سخت مہم تھی۔ مسلسل شکستوں اور اہم کھلاڑیوں کے زخمی ہونے کے بعد کراچی کنگز کے خلاف کامیابی کے ساتھ اسلام آباد نے ہمت پکڑی اور پھر مسلسل پانچ فتوحات حاصل کرتے ہوئے "پی ایس ایل 1" جیت لیا۔ مصباح نے اسے عالمی کپ 1992ء سے تشبیہ دی کہ جہاں پاکستان بھی پہلے مسلسل شکستوں سے دوچار ہوا اور پھر پے در پے کامیابیاں سمیٹتا ہوا عالمی چیمپئن بنا۔
مصباح نے پی ایس ایل چیمپئن بننے میں ٹیم کے مجموعی تجربے کو اہم قرار دیا۔ شین واٹسن، بریڈ ہیڈن اور سعید اجمل جیسے تجربہ کار کھلاڑیوں کے ساتھ وسیم اکرم اور ڈین جونز بھی انتظامیہ میں موجود تھے یعنی سوائے سعید اجمل کے سبھی عالمی کپ جیتنے والے تھے۔ مصباح کا کہنا تھا کہ کئی ورلڈ چیمپئنز کی موجودگی اور آندرے رسل اور ڈیوین اسمتھ جیسے کھلاڑیوں کا ساتھ، جو لیگ کرکٹ کھیلنے کا وسیع تجربہ رکھتے ہوں، سنگین حالات سے بھی کامیابی سے نکل جانے کا یقین دیتے ہیں اور ثابت کرتے ہیں کہ تجربے کا کوئی متبادل نہیں۔
سپر لیگ جیسے ٹورنامنٹس کا سب سے زیادہ فائدہ نوجوانوں کو ہوتا ہے، جو تجربہ کاروں کے ساتھ کھیل کر بہت کچھ سیکھتے ہیں۔ مصباح نے بھارت کے ویراٹ کوہلی کی مثال دی کہ آئی پی ایل کے پہلے سیزن میں وہ صرف 19 سال کے تھے اور ان کے ساتھ رائل چیلنجرز بنگلور کی جانب سے کھیل رہے تھے لیکن آج بھارت کی ٹیم میں ریڑھ کی ہڈی بن چکے ہیں۔
پاکستان سپر لیگ کے حوالے سے مصباح نے کہا کہ مشکل حالات کے باوجود اس کا انعقاد شاندار رہا اور امید ہے کہ آئندہ سالوں میں پی ایس ایل مزید بہتر اور موثر ہوگی۔
قوی امکان ہے کہ 2016ء مصباح الحق کا بین الاقوامی کرکٹ میں آخری سال ہوگا۔ ٹی ٹوئنٹی اور ایک روزہ چھوڑنے والے مصباح اب جون میں دورۂ انگلستان کے بعد غالباً طویل طرز کی کرکٹ بھی چھوڑ جائیں گے اور اپنے پیچھے ایک شاندار ورثہ چھوڑ جائیں گے۔ مصباح تجھے سلام!