پاک بھارت ٹی ٹوئنٹی تاریخ، پاکستان کی شکست سے عبارت

2 1,096

جس وقت کا سب کو انتظار ہے، وہ بس آیا ہی چاہتا ہے۔ پاکستان اور بھارت کا "کانٹے دار" مقابلہ کون جیتا ہے، یہی سوال اس وقت برصغیر کے ہر گھر اور گلی کوچے میں ہو رہا ہے۔ کوئی پاکستانی کی باؤلنگ دہشت سے خائف ہے تو کوئی بھارتی بلے بازوں کی مار کا واویلا کر رہا ہے۔ بہرحال، نتیجہ کیا ہوگا یہ توچند گھنٹوں میں سب کو معلوم ہوجائے گا لیکن ٹی ٹوئنٹی کے میدان میں دونوں ٹیمیں اب تک کیا کارنامے انجام دیتی رہی ہیں، یہ ضرور دیکھنے چاہئیں۔

پاک-بھارت کرکٹ کا المیہ یہ ہے کہ دونوں روایتی حریفوں کے مابین باقاعدہ مقابلے نہیں ہو رہے۔ سالوں گزر گئے دونوں نے کوئی مکمل سیریز نہیں کھیلی۔ بین الاقوامی کرکٹ کونسل کے ایونٹس میں ٹکراؤ ہو گیا تو ہوگیا، ورنہ 'کوئی ویرانی سی ویرانی ہے' ۔ آخر بار دونوں ٹیمیں کسی ٹی ٹوئنٹی مقابلے میں تب مقابل آئی تھیں جب ورلڈ ٹی ٹوئنٹی ہی تھا۔ 2014ء میں میرپور، ڈھاکہ کے شیر بنگلہ نیشنل اسٹیڈیم میں ہونے والے مقابلے میں بھارت نے باآسانی پاکستان کو 7 وکٹوں سے شکست دی تھی۔ بعد ازاں بھارت فائنل تک بھی پہنچا لیکن وہاں اسے سری لنکا سے شکست ہوئی۔

ایشیا کپ کی تاریخ میں دونوں ٹیمیں 11 مرتبہ آمنے سامنے آ چکی ہیں جس میں دونوں کو پانچ، پانچ کامیابیاں ملی ہیں۔ لیکن ماضی کے تمام 10 مقابلے ایک روزہ تھے اور تاریخ میں پہلا موقع ہے کہ ایشیا کپ ٹی ٹوئنٹی طرز میں کھیلا جا رہا ہے۔ اس لیے ایشیا کپ سے ہٹ کر بات کریں تو دونوں ٹیمیں آس سے پہلے 6 مرتبہ ٹی ٹوئنٹی میچز کھیل چکی ہیں، جس میں بھارت کو واضح برتری حاصل ہے۔ ان مقابلوں کا نتیجہ کیا رہا؟ آئیے آپ کو بتاتے ہیں:

پہلا شاہکار

Robin-Uthappa
ورلڈ ٹی ٹوئنٹی 2007ء، یہ پہلا موقع تھا کہ جب روایتی حریف مختصر ترین طرز کی کرکٹ میں آمنے سامنے آئے۔ کیونکہ اس وقت کسی کو ٹی ٹوئنٹی کا اتنا تجربہ نہیں تھا اس لیے اندازہ نہیں تھا کہ فاتح کون ہوگا۔ لیکن اختتام تک یہ مقابلہ سنسنی خیزی کے عروج تک پہنچ گیا۔ پاکستان نے پہلے گیندبازی کی اور صرف 19 رنز پر بھارت کے تین کھلاڑی آؤٹ کردیے۔ لیکن روبن اُتھپا کے 50 رنز کی بدولت 141 رنز ضرور بنائے۔ اسکور بہت زیادہ مشکل تو نہیں تھا لیکن ابتدائی بلے بازوں کی ناکامی کی وجہ سے بھارت غالب آ گیا۔ صرف 87 رنز پر پاکستان کے پانچ کھلاڑی آؤٹ ہو چکے تھے جب مصباح الحق کی شاندار بلے بازی کی بدولت پاکستان آخری اوور میں 141 رنز تک پہنچ گیا۔ آخری گیند پر مصباح کے رن آؤٹ کی وجہ سے مقابلہ ٹائی ہوگیا۔ اس زمانے میں ٹائی مقابلوں کا فیصلہ باؤلر کرتے تھے۔ دونوں ٹیموں کا ایک، ایک باؤلر وکٹوں کو نشانہ مارنے کے لیے آتا اور جو زیادہ مرتبہ ایسا کرتا کامیاب پاتا۔ پاکستان کے گیندباز ناکام رہے، بھارت کو کامیابی ملی اور یوں یہ شکست کہلائی۔

دل گرفتہ منظر

Misbah-ul-Haq
اب تو سالہا سال روایتی حریفوں کا مقابلہ دیکھنے کو آنکھیں ترستی ہیں لیکن کبھی وہ وقت بھی تھا کہ صرف 10 دن بعد پاکستان اور بھارت ایک مرتبہ پھر مقابل تھے، وہ بھی فائنل میں۔ پہلے سنسنی خیز مقابلے کے بعد اس میچ سے بھی بڑی توقعات تھیں اور واقعی اس نے مایوسنہیں کیا۔ بھارت نے پہلے بلے بازی کی اور گوتم گمبھیر کے 75 رنز کی وجہ سے 157 رنز بنائے۔ پاکستان کو پہلے مقابلے میں 142 رنز بنانے میں ناکام رہا تھا، اس لیے خدشہ یہی تھا کہ ناکامی ہوگی۔ جب 77 رنز پر 6 کھلاڑی آؤٹ ہوگئے تو تمام توقعات ختم ہوگئیں۔ یہاں مصباح الحق ایک مرتبہ پھر کھیلے اور خوب کھیلے۔ ان کے 43 رنز کی بدولت پاکستان 152 رنز تک پہنچ گیا۔ پاکستان کو چار گیندوں پر صرف چھ رنز کی ضرورت تھی جو مصباح کی موجودگی میں بالکل آسان دکھائی دیتے تھے۔ لیکن یہاں 'اسکوپ' کھیلنے کی غلطی سے پاکستان عالمی اعزاز سے محروم ہوگیا۔ مصباح نے شاٹ کھیلا جو براہ راست فیلڈر کے ہاتھوں میں چلا گیا اور یوں بھارت ٹی ٹوئنٹی کا پہلا عالمی چیمپئن بن گیا۔

شکست در شکست در شکست


پانچ سال کے طویل وقفے کے بعد پاکستان اور بھارت کسی ٹی ٹوئنٹی میچ میں اس وقت مقابل آئے جب 2012ء میں ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کا میلہ سری لنکا میں سجا۔ گزشتہ مقابلے کی نسبت اس بار ٹاس پاکستان نے جیتا لیکن بلے باز بھارتی باؤلرز کے سامنے نہ ٹک پائے۔ پوری ٹیم صرف 128 رنز پر ڈھیر ہوگئی۔ بھارت کی مضبوط بیٹنگ لائن کے لیے یہ ہدف کچھ نہیں تھا۔ اس نے باآسانی یہ مقابلہ 8 وکٹوں سے جیتا۔

بنگلور میں سبز ہلالی پرچم سربلند


طویل عرصے کے بعد مختصر ہی سہی لیکن پاک بھارت سیریز 2012ء کے اواخر میں کھیلی گئی۔ اس کا ایک مقابلہ بنگلور میں ہوا کہ جہاں پاکستان نے تاریخ میں پہلی بار روایتی حریف کو کسی ٹی ٹوئنٹی میں شکست دی۔ بھارت نے پاکستان کی دعوت پر پہلے بیٹنگ کی لیکن پاکستانی باؤلرز کےسامنے صرف 133 رنز تک محدود رہا۔ مختصر ہدف کے حصول میں پاکستان کے ابتدائی بلے باز تو ناکام دکھائی دیے کہ جو صرف 12 رنز پر تین وکٹوں سے محروم ہوئے لیکن محمد حفیظ اور شعیب ملک کی ذمہ دارانہ بیٹنگ سے پاکستان نے یہ مقابلہ پانچ وکٹوں سے جیتا۔

حساب برابر


یہ پاک-بھارت سیریز کا دوسرا میچ تھا۔ اگر پاکستان یہ بھی جیت جاتا تو سیریز میں دو-صفر سے کامیابی ملتی، لیکن ایسا ہو نہ سکا۔ پاکستان نے یہاں بھارت کو بلے بازی کی دعوت دی، جسے میزبان نے دل سے تسلیم کیا اور یوراج سنگھ کے شاندار 72 رنز کی بدولت 192 رنز بنا ڈالے۔ دلچسپ بات یہ کہ اتنے بڑے مجموعے کو دیکھ کر بھی پاکستانی بلے بازوں سے پامردی سے مقابلہ کیا اور 18 ویں اوور تک چار وکٹوں پر 163 رنز بنا چکے تھے۔ یعنی آخری دو اوورز میں 30 رنز کی ضرورت تھی۔ ہدف بہت آسان تو نہیں تھا لیکن محمد حفیظ، کامران اکمل اور پھر شعیب ملک کی موجودگی میں مشکل بھی نہیں تھا۔ لیکن آخری دو اوورز میں بھارتی گیندباز چھائے ہوئے دکھائی دیے اور بھارت نے یہ مقابلہ 11 رنز سے جیت کر سیریز ایک-ایک سے برابر کردی۔

آخری شکست

Suresh-Raina-Virat-Kohli
ابتدائی پانچ مقابلوں میں صرف ایک کامیابی کے بعد پاکستان کے لیے ضروری تھا کہ وہ بلند حوصلوں کے ساتھ میدان میں اترے اور کامیابی کو یقینی بنائے۔ لیکن بلے بازوں نے ایک مرتبہ پر ناکامی کی راہ ہموار کی۔ پاکستان کو پہلے بیٹنگ کی دعوت دی گئی لیکن وہ مقررہ 20 اوورز میں صرف 130 رنز ہی بنا سکا۔ بھارت کے لے یہ ہدف بہت آسان تھا جواس نے 18 ویں اوور میں صرف تین وکٹوں کے نقصان پر حاصل کرلیا۔

اب آج دیکھنا یہ ہے کہ ڈھاکہ میں پاکستان تاریخ کا دھارا موڑے گا یا بھارت فتوحات کا تسلسل جاری رکھے گا۔