"غم گسار تھا، نہ رہا"

0 1,061

آج دنیائے کرکٹ افسردہ ہے۔ جدید کرکٹ میں نیوزی لینڈ کا پہلا 'لیجنڈری' بلے باز مارٹن کرو سرطان کے خلاف جنگ ہارتے ہوئے دنیا کو غمزدہ کرگیا۔

مارٹن کرو نے صرف 53 سال کی زندگی پائی اور اس مختصر زندگی میں بھی انہوں نے وہ سب کچھ پایا، جو ان کی خواہش تھی۔ اپنا پسندیدہ کھیل کرکٹ کھیلا، عروج تک گئے، پھر کتاب بھی لکھی، کمنٹری بھی کی اور کوچنگ کے فرائض بھی انجام دیے۔ کرکٹ ان کے خون میں رچی بسی تھی۔ ان کے والد ڈیو کرو فرسٹ کلاس کرکٹ کھیل چکے تھے جبکہ ان کے بھائی جیف کرو تو ملک کے کپتان تک بنے۔ لیکن مارٹن اپنے خاندان میں سب سے نمایاں دکھائی دیے۔

1982ء میں آسٹریلیا کے خلاف صرف 19 سال کی عمر میں انہوں نے اپنا پہلا ٹیسٹ کھیلا۔ بارش سے متاثرہ مقابلے میں وہ صرف 9 رنز بنا سکے بلکہ یہ کہا جائے تو بہتر ہوگا کہ ان کے کیریئر کا آغاز بہت برا تھا۔ چھ، سات مقابلوں تک تو وہ کچھ ثابت نہ کر سکے۔ یہاں تک کہ پہلی سنچری بنائی اور پھر بناتے ہی چلے گئے۔ جب 1995ء میں انہوں نے کرکٹ کو خیرباد کہا تو ان کے ریکارڈ پر 77 ٹیسٹ میچز موجود تھے اور ملک کے لیے کئی ریکارڈز بھی ان کی جیب میں آ چکے تھے۔ جیسا کہ سب سے زیادہ 5444 رنز، سب سے طویل 299 رنز کی اننگز، سب سے زیادہ 35 نصف سنچریاں، سب سے زیادہ 17 سنچریاں اور سب سے بڑھ کر نیوزی لینڈ کرکٹ کو جدت کی راہ پر ڈالنا۔ ان میں سے بیشتر ریکارڈ تو ٹوٹ چکے ہیں لیکن مارٹن کرو کی لافانی حیثیت آج بھی ختم نہیں ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ آسٹریلیا کے عظیم اسپنر شین وارن نے مارٹن کو کرکٹ تاریخ کے 100 شاندار کھلاڑیوں میں شامل کیا۔

وہ صرف ایک عمدہ بلے باز نہیں ایک زبردست کپتان بھی تھے۔ 1992ء کے عالمی کپ میں اگر پاکستان کا 'جنون' آڑے نہ آتا تو لازمی نیوزی لینڈ عالمی چیمپئن بنتا۔ نئے اور حیران کن فیصلوں کی وجہ سے وہ نیوزی لینڈ کو مسلسل سات فتوحات کے ساتھ عالمی کپ سیمی فائنل تک لائے لیکن پاکستان کی غیر معمولی کارکردگی کی وجہ سے عالمی کپ سے باہر ہوئے۔ لیکن ٹورنامنٹ کے بہترین کھلاڑی کا اعزاز کرو ہی کو ملا۔

Martin-Crowe
عالمی کپ 2015ء کے موقع پر بین الاقوامی کرکٹ کونسل نے کرو کو "آئی سی سی ہال آف فیم" کا حصہ بنایا جہاں صرف تاریخ کے عظیم ترین کھلاڑیوں کو جگہ دی جاتی ہے۔

کرو نے ریٹائرمنٹ کے بعد بھی کرکٹ کا خدمت جاری رکھی۔ ان کا سب سے بڑا کارنامہ 'ٹی ٹوئنٹی' کرکٹ کی بنیاد رکھنا تھا۔ ان کا دماغ ویسے ہی نت نئی چیزوں میں چلتا تھا۔ جب انہوں نے پایا کہ دیگر کھیلوں کے مقابلے میں کرکٹ کا دورانیہ زیادہ ہے تو کرکٹ کو بھی مختصر دورانیہ کا کوئی کھیل ہونا چاہیے۔ بس انہوں نے مختلف اداروں کے ساتھ مل کر اس کی کوششیں شروع کیں اور پھر 17 فروری 2005ء کو نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کے مابین پہلے بین الاقوامی ٹی ٹوئنٹی کے ساتھ ایسا سلسلہ چل پڑا، جو آج بھی قائم و دائم ہے۔

مارٹن کرو کی سب سے یادگار اننگز 1985ء میں آسٹریلیا کے خلاف 182 رنز بنانا تھی۔ اس کے علاوہ لارڈز کے میدان پر انگلستان کے خلاف 142 رنز کو بھلانا بھی آسان نہیں۔ البتہ کئی ماہرین سری لنکا کے خلاف 299 رنز کی اننگز کو ان کے کیریئر کا عروج سمجھتے ہیں۔ کرو صرف ایک رن کی کمی کی وجہ سے ٹرپل سنچری بنانے والے نیوزی لینڈ پہلے بیٹسمین نہ بن سکے اور کہتے تھے کہ آج بھی ایسا لگتا ہے جیسے ایورسٹ کی بلندیوں پر پہنچا لیکن ہمت ہار گیا۔

مارٹن کرو کو 2012ء میں پہلی بار علم ہوا کہ وہ سرطان کے موذی مرض کا شکار ہیں۔ کیموتھراپی جیسے تکلیف دہ عمل سے گزر کر انہوں نے علاج کروایا اور سرطان کو شکست دینے میں بھی کامیاب ہوئے لیکن 2014ء میں یہ مرض دوبارہ پلٹ کر آیا اور اس مرتبہ ان کی جان لے کر ہی چھوڑی۔ مارٹن تو دنیا سے چلے گئے لیکن جب تک کرکٹ کھیلی جاتی رہے گی، ان کا نام زندہ رہے گا۔