پاکستان کی حوصلہ افزا کامیابی، سری لنکا پھر ناکام
ایشیا کپ میں دفاعی چیمپئن سری لنکا کی مہم اس بری طرح ناکام ہوگی، اس کا کسی نے تصور بھی نہ کیا تھا۔ وہ آخری مقابلے میں اب تک بدترین کارکردگی دکھانے والے پاکستان کے ہاتھوں بھی شکست سے دوچار ہوا اور اب سال کے سب سے بڑے ٹورنامنٹ ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے لیے شکست خوردہ ذہنیت کے ساتھ روانہ ہوگا۔
پاک-لنکا مقابلے کے ابتدائی 14 اوورز تک سری لنکا مکمل طور پر غالب تھا۔ بغیر کسی وکٹ کے نقصان کے 110 رنز بنانے کا مطلب تھا کہ پاکستان کا واحد شعبہ جو اب تک کچھ کام کر رہا تھا، یعنی باؤلنگ، وہ بھی ناکام دکھائی دیا۔ لیکن پاکستانی گیندباز آخری 6 اوورز میں دوبارہ ہوش میں آئے اور سری لنکا کو صرف 40 رنز بنانے دیے۔ یوں پاکستان مقابلے میں ایسا واپس آیا کہ سری لنکا آخر تک دوبارہ سر نہ اٹھا سکا۔ پاکستان نے 151 رنز کا ہدف آخری اوور میں صرف چار وکٹوں کے نقصان پر حاصل کیا اور یوں مایوس کن آغاز کو حوصلہ افزا اختتام میں بدلا۔
میرپور، ڈھاکا میں ہونے والے اس مقابلے کا نتیجہ ٹورنامنٹ پر تو کوئی اثر نہیں ڈالتا، کیونکہ پاک-لنکا دونوں نے و بھارت اور بنگلہ دیش سے شکست کھا کر انہیں فائنل کی راہ دی تھی۔ پھر بھی اس مقابلے میں کامیابی حاصل کرنا اعتماد کی بحالی کی خاطر دونوں کے لیے ضروری تھا۔ یہاں ٹاس پاکستان کے کپتان شاہد آفریدی جیتا اور فیلڈنگ کا فیصلہ کیا جو ابتدا میں بہت برا ثابت ہوا۔ دنیش چندیمال اور تلکارتنے دلشان نے، پاکستانی فیلڈرز کی نااہلی کی بدولت، سری لنکا کو ایک بہترین آغاز فراہم کیا۔ پاکستانی باؤلرز ابتدائی 14 اوورز تک ایک وکٹ کے لیے ترستے رہے۔ کپتان چندیمال 49 گیندوں پر 58 رنز کی ایک عمدہ اننگز کھیلنے کے بعد جب آؤٹ ہوئے تو یہ پندرہواں اوور تھا۔ اس وقت اسکور بورڈ پر 110 رنز موجود تھے اور سری لنکا آخری 6 اوورز میں اسی طرح کھیل کر 160 سے 170 رنز بنانا چاہتا تھا۔ لیکن یہاں پاکستانی گیندبازوں نے مقابلے پر گرفت حاصل کی۔ شعیب ملک نے اگلے اوور میں شیہان جے سوریا کو، جبکہ محمد عرفان نے چمارا کپوگیدرا اور ڈاسن شناکا کو ایک ہی اوور میں ٹھکانے لگا کر سری لنکا کی پیشرفت کو سخت ٹھیس پہنچائی۔ گو کہ دلشان ایک کنارے پر کھڑے ہوئے تھے، اور 56 گیندوں پر ایک چھکے اور 10 چوکوں کی مدد سے 75 رنز بنا کر ناقابل شکست رہے، لیکن سری لنکا توقعات سے کم 150 رنز ہی بنا سکا۔ یعنی پاکستانی باؤلرز نے آخری 6 اوورز میں صرف 40 رنز دیے۔
پاکستان نے آج محمد نواز کو کھلایا تھا جو بری طرح ناکام ہوئے۔ ان کے 3 اوورز میں 38 رنز پڑے، جن میں پہلے اوور کی ابتدائی تین گیندوں پر لگنے والے دو چوکے اور ایک چھکا بھی شامل تھا۔ دیگر باؤلرز میں محمد عرفان نے 4 اوورز میں صرف 18 رنز دیے اور دو وکٹیں لیں۔ عامر نے آغاز تو بہت عمدہ لیا اور ابتدائی اوور میں دلشان اور چندیمال کو سخت پریشان کیا لیکن وہ وکٹ کوئی نہ حاصل کر سکے۔ ایک، ایک کھلاڑی کو وہاب ریاض اور شعیب ملک نے آؤٹ کیا۔
ایشیا کپ کے کسی مقابلے میں 131 رنز سے آگے نہ جا پانے والے پاکستان 151 رنز کیسے عبور کرے گا؟ یہ بڑا سوال تھا۔ جب چوتھے اوور میں محمد حفیظ ایک مرتبہ پھر ناکام ہوکر واپس آئے تو اس کا جواب اور مشکل ہوگیا۔ لیکن یہاں سرفراز احمد کو اوپر بھیجنے کے فیصلے نے اپنا کام کر دکھایا۔ وہ شرجیل خان کے ساتھ مل کر 7 اوورز میں ہی مجموعے کو 58 رنز تک لے آئے جس کے ساتھ ہی شرجیل کی ایک چھکے اور 5 چوکوں پر مشتمل 31 رنز کی اننگز تمام ہوئی۔ سرفراز آگے بڑھتے رہے اور 27 گیندوں پر 38 رنز کی عمدہ باری کھیلنے کے بعد تیرہویں اوور میں آؤٹ ہوئے جب پاکستان کا اسکور 94 رنز تک پہنچ چکا تھا۔ یہاں عمر اکمل اور شعیب ملک نے ایک مرتبہ پھر بحرانی کردار ادا کیا۔ دونوں نے اگلے چھ اوورز میں 56 فیصلہ کن رنز کا اضافہ کیا۔ عمر اکمل دھواں دار بیٹنگ کے بعد چوکے کے ذریعے اپنی نصف سنچری کی تکمیل اور پاکستان کو کامیابی سے ہمکنار کرنا چاہ رہے تھے لیکن لانگ آف پر تھیسارا پیریرا کے ایک شاندار کیچ نے ان کی اننگز ختم کردی۔ 37 گیندوں پر 48 رنز کی اننگز میں چار چوکے اور دو زبردست چھکے بھی شامل تھے۔
شعیب ملک کا آخری اوور کی دوسری گیند پر لگایا گیا شاٹ بھی کیچ ہو جاتا لیکن نووان کولاسیکرا نے کیچ چھوڑا اور پاکستان نے درکار ایک رن دوڑ کر میچ جیت لیا۔ سری لنکا نے ٹی ٹوئنٹی میں ہی 8 گیندباز آزما لیے لیکن کوئی تدبیر کام نہ آئی۔
آخر میں عمر اکمل کو شاندار اننگز کھیلنے پر میچ کے بہترین کھلاڑی کا اعزاز ملا۔
بیٹنگ جہاں پاکستان کا ایک حوصلہ پہلو رہی وہیں فیلڈنگ بہت بھیانک تھی۔ دلشان ہرگز 75 رنز کی طویل اننگز نہ کھیلتے اگر پاکستان کے فیلڈرز کمال فیاضی کے ساتھ انہیں نئی زندگیاں نہ دیتے۔ صرف 6 رنز پر محمد نواز کی براہ راست تھرو مارنے میں ناکامی کی وہج سے وہ رن آؤٹ ہونے سے بچے۔ پھر پانچویں اوور میں محمد عرفان نے شاہد آفریدی کی گیند پر عرفان کا آسان کیچ چھوڑا، جب وہ صرف 7 رنز پر کھیل رہے تھے۔ عرفان نے آخر میں بھی ایک موقع ضائع کیا، جب دلشان 64 رنز تک آ چکے تھے۔ بہرحال، اب ایشیا کپ پاکستان اور سری لنکا کے لیے ماضی کا حصہ بن چکا ہے۔ سری لنکا کے لیے نتیجہ اس لیے بہت زیادہ مایوس کن ہے کیونکہ انہوں نے ایشیا کپ کے دفاع میں ناکامی کے بعد اب ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں بھی دفاع کرنا ہے۔ 2014ء میں حاصل کی گئی تاریخی فتح میں کمار سنگاکارا اور مہیلا جے وردھنے دستے کا حصہ تھے، آج ان کی عدم موجودگی میں ٹیم کافی جدوجہد کرتی دکھائی دے رہی ہے۔ امید ہے کہ لاستھ مالنگا کے فٹ ہونے اور دلشان کے آج سے فارم میں آنے کے بعد سری لنکا ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں ایک سخت حریف ثابت ہوگا۔