"بڑے دل" والے وریندر سہواگ نے اپنی اوقات دکھا دی
آپ کو یاد ہوگا جب عالمی کپ 2011ء کے سیمی فائنل میں شکست کھانے کے بعد پاکستان کی کرکٹ ٹیم وطن واپس آئی تھی تو کپتان شاہد آفریدی نے کہا تھا کہ "پاکستانیوں کے دل بڑے ہوتے ہیں اور بھارتی چھوٹے دل کے مالک ہوتے ہیں۔" یہ بیان چاہے سیاق و سباق سے ہٹا کر پیش کیا گیا ہو، لیکن اس نے خاص طور پر سرحد کے اس پار بہت ہنگامہ مچایا۔ لیکن آج اس واقعے کے پانچ سال کے بعد "لالا" کے ہم عصر بھارتی کھلاڑی نے اس بات پر مہر تصدیق ثبت کردی۔ ایک ایسے موقع پر جب ورلڈ ٹی ٹوئنٹی سے قبل پاکستان کے بھارت جانے پر ہندو انتہا پسندوں نے سخت موقف اختیار کیا ہوا ہے اور یہ تک کہا گیا ہے کہ اگر پاکستانی ٹیم بھارت آئی تو دھرم شالا کے میدان کی پچ کھود دیں گے کہ جہاں پاکستان روایتی حریف کے خلاف اپنا اہم میچ کھیلے گا۔ سابق بلے باز وریندر سہواگ کو اپنی 'نیچ ذہنیت' دکھانے کا یہی موقع ملا ہے، معروف اخبار 'دکن کرونیکلز' سے گفتگو کرتے ہوئے موصوف کہتے ہیں کہ پاکستان کے سابق تیز باؤلر شعیب اختر بھارت کی صرف اس لیے تعریف کرتے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ کما سکیں۔
سہواگ جیسے زبردست بیٹسمین نے یہ بات کہہ کر اپنے تیسرے، بلکہ چوتھے، درجے کی ذہنیت کی عکاسی کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ آج کل شعیب اختر کی زبان سے بھارت کے لیے بہت پھول جھڑ رہے ہیں، اس کی وجہ یہ نہیں کہ وہ بڑے مخلص ہیں بلکہ یہ ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ پیسے کمانا چاہتے ہیں۔ اگر ماضی کے شعیب اختر کو یاد کریں تو آج کے شعیب اختر کو دیکھ کر یقین ہی نہیں آئے گا۔ "جب وہ باؤلنگ کرتے تھے تو بھارتی بلے بازوں پر کبھی رحم نہیں کھایا، لیکن آج تعریفیں سن کر یقین آ گیا ہے کہ پیسہ سب کچھ کروا سکتا ہے۔"
اتنی بے وقوفانہ بات؟ اندازہ ہوگیا کہ کچھ لوگ بوڑھے نہیں ہوتے، صرف بڈھے ہو جاتے ہیں۔ پاکستان کے کسی کھلاڑی سے یہ توقع رکھنا کہ وہ بھارت کے لیے "مخلص" ہو، پھر یہ بھی کہنا کہ "بھارت کے بیٹسمینوں پر کبھی رحم نہیں کھایا" اور سب سے بڑھ کر یہ امید لگانا کہ اب وہ بھارت کے ٹیلی وژن چینلوں پر تبصرہ کار کے طور پر بیٹھیں، اور بھارت کے کھلاڑیوں کو ان کے اچھے کھیل کے باوجود کھری کھری سنائیں۔ اس سادگی پہ کون نہ مرجائے اے خدا!
بات کو آگے بڑھاتے ہوئے سہواگ مزید کہتے ہیں کہ آجکل پاکستانی جیسا کہ محمد یوسف، ثقلین مشتاق اور رانا نوید الحسن، سب بھارت آنا چاہتے ہیں تاکہ یہاں کی بڑی مارکیٹ کا فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں کیونکہ یہاں سے کمایا گیا ایک لاکھ روپیہ پاکستان جا کر دو لاکھ بن جاتا ہے۔ (یار ہنسی ضبط نہیں ہو رہی قسم سے)
یہ بچکانہ باتیں کرتے ہوئے شاید وریندر سہواگ بھول گئے ہیں کہ ان کے ہم وطن اجے جدیجا اس وقت پاکستان کے قومی ٹیلی وژن چینل پر تجزیے پیش کر رہے ہیں، اور کیا خوب کررہے ہیں۔ تو سہواگ میاں ذرا اجے جدیجا یہ پوچھیں کہ پاکستان میں ان کی مہمان نوازی کی گئی یا انہیں اسی طرح طعنے دیے گئے۔ امید ہے کہ اپنے ہم وطن کا جواب ان کو بتا دے گا کہ "بڑے دل کس کے ہیں؟"