پاکستان، بھارت اور سری لنکا، ایشیا کپ سے ورلڈ ٹی ٹوئنٹی تک

0 1,077

بھارت چھٹی مرتبہ ایشیائی چیمپئن بن گیا جو اپنی نہاد میں خود ایک بہت بڑا کارنامہ ہے ۔ فائنل میں بنگلہ دیش کو باآسانی 8 وکٹوں سے شکست دے کر بھارت نے ثابت کردیا ہے کہ وہ ورلڈ ٹی ٹوئنٹی 2016ء کا سب سے مضبوط امیدوار ہے۔ گو کہ رواں سال ٹی ٹوئنٹی فارمیٹ میں کھیلا جانے والا ایشیا کپ ویسا یادگار ثابت نہیں ہوا جیسا کہ 2014ء کا ٹورنامنٹ تھا لیکن پھر بھی اس کے پانچ اہم پہلو ہیں۔

بے حال سری لنکا

کوئی بھی شعبہ زندگی ہو، کوئی وہاں مستقل نہیں رہتا۔ وقت آتا ہے کہ اسے الوداع کہنا پڑتا ہے۔ عقلمند وہی ہے جو اس وقت سے پہلے اس کی منصوبہ بندی کرے تاکہ بعد میں ایک اچھا متبادل ملے اور زیادہ نقصان نہ ہو۔ کرکٹ کے میدان میں آسٹریلیا کو دو عظیم کھلاڑیوں کو ایک ساتھ کھونا پڑا، شین وارن اور گلین میک گرا، لیکن ان کی کمی کو اتنی جلدی پورا کرلیا گیا کہ گویا کچھ ہوا ہی نہیں۔ جبکہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ ایک سال گزرنے کے بعد بھی سری لنکا مہیلا جے وردھنے اور کمار سنگاکارا کا متبادل تلاش نہیں کر سکا۔ یہ الگ بات کہ اتنے عظیم کھلاڑیوں کا متبادل ہو ہی نہیں سکتا لیکن کم از کم ان کی جگہ کو پورا کرنے کا حقدار تو موجود ہوگا۔ اب تو ایسا لگا تے کہ سنگا اور مہیلا کے بغیر سری لنکا بے یار و مددگار ہے یہاں تک کہ تلکارتنے دلشان، دنیش چندیمال اور اینجلو میتھیوز جیسے کھلاڑی بھی نہیں چل پا رہے۔ جہاں کوئی ایسی وکٹ آئی کہ جو گیندبازوں کو تھوڑی سی بھی مدد دے، وہاں بیٹنگ لائن لڑکھڑا جاتی ہے۔ ورلڈ ٹی ٹوئنٹی سے صرف چند روز قبل سری لنکا کو بیٹنگ کے ساتھ ساتھ گیندبازی میں خود کو منظم کرنے کی ضرورت ہے۔

پاکستان کا انحصار محمد عامر پر

Mohammad-Amir

محمد عامر کو بین الاقوامی کرکٹ میں واپس آئے ہوئے چند مہینے ہوگئے ہیں اور اگر کسی نے اب تک ان کی آمد کو محسوس نہیں کیا تھا تو ایشیا کپ وہ موقع تھا جہاں سب کو پتہ چل گیا کہ "کس شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے۔" پانچ سال طویل پابندی کے بعد عامر پر سوالات اٹھ رہے تھے کہ وہ پہلے جتنے موثر اور فائدہ مند ثابت ہوں گے یا نہیں لیکن عامر خود کو ثابت کر چکے ہیں۔ بھارت کے عالمی معیار کے بلے بازوں کو انہوں نے جیسا تگنی کا ناچ نچایا، وہ قابل دید منظر تھا۔ 150 کلو میٹرز فی گھنٹہ تک کی طوفانی رفتار اور گیند کو دونوں اطراف میں گھمانے کی شاندار صلاحیت نے عامرکو دوبارہ دنیا کے بہترین گیند بازوں کی فہرست میں لا کھڑا کیا ہے ۔ بھارت کے ویراٹ کوہلی نے ان کا سامنا کیا اور انہیں خطرناک باؤلر قرار دیا۔ اب ورلڈ ٹی ٹوئنٹی سے قبل ان پر توقعات کا بوجھ بھی ہے لیکن ساتھ ہی اپنے زور بازو پر اعتماد بھی۔

لیکن پاکستان کا حال اس وقت کافی خراب ہے۔ مسلسل شکستوں کے بعد اس کی کامیابی کے امکانات ویسے ہی کم ہوگئے ہیں کیونکہ اسے اپنے گروپ میں بھارت، آسٹریلیااور نیوزی لینڈ جیسے سخت حریفوں کا سامنا ہے، جہاں سوائے کامیابی کے کوئی اور راہ اس کے سامنے نہیں ہے۔ اگر محمد عامر پاکستان کے حوصلے بلند کرنے میں کامیاب ہوئے اور سری لنکا کے خلاف ایشیا کپ کے آخری میچ جیسی کارکرگی دہرانے میں کامیاب ہوا تو پاکستان ایک سخت حریف بن سکتا ہے۔ بصورت دیگر گزشتہ دو ورلڈ ٹی ٹوئنٹی ٹورنامنٹس جیسی بھیانک کارکردگی ہی کی توقع رکھیں۔

بلند حوصلہ بھارت

چھٹی مرتبہ ایشیا کپ جیتنے کے بعد، وہ بھی اس طرح کہ تمام ہی میچز میں کامیابی حاصل کی، بھارت کے کپتان مہندر سنگھ دھونی کو یقین ہے کہ ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے لیے ان کی ٹیم سب سے مضبوط امیدوار ہے اور وہ یہ ٹورنامنٹ جیت کر ایک اور تمغہ اپنے سینے پر سجا سکتے ہیں، دو مرتبہ ورلڈ ٹی ٹوئنٹی جیتنے والے پہلے کپتان بن سکتے ہیں۔

ایشیا کپ جیتنے میں بھارت کو چنداں مشکل پیش نہ آئی۔ تمام شعبوں میں لاجواب کارکردگی وہ عنصر ہے جس نے جیت کو اتنا آسان بنایا۔ دونوں اوپنرز بہترین فارم میں ہیں، اچھا آغاز فراہم کر رہے ہیں۔ مڈل آرڈر کے تو کیا ہی کہنے کہ جہاں ویراٹ کوہلی کا ساتھ بھی حاصل ہے اور سب سے بڑھ کر فاتحانہ اختتام کرنے میں مہارت رکھنے والے دھونی کا بلّا بھی خوب جوہر دکھا رہا ہے۔ اس لیے جس پہلو سے بھی جائزہ لیں بھارت ایشیا کپ جتینے کے بعد ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے لیے سب سے متوازن اور بہترین دستہ لگتا ہے اور کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ بھارت دوسری بار عالمی ٹی ٹوئنٹی چیمپئن نہ بنے۔