ورلڈ ٹی ٹوئنٹی: کیا پاکستان واقعی میں کمزور حریف ہوگا؟

1 1,035

ابھی چند سال پہلے ہی یہ عالم تھا کہ بین الاقوامی ٹی ٹوئنٹی میں پاکستان کا کوئی مقابل نہیں تھا، جس کا ثبوت یہ ہے کہ ابتدائی چاروں ورلڈ ٹی ٹوئنٹی ٹورنامنٹس میں پاکستان کی کارکردگی۔ پہلے ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے فائنل تک پہنچا، دوسرے میں چیمپئن بنا اور پھر اگلے دونوں کا سیمی فائنل کھیلا۔ لیکن گزشہ سال ڈیڑھ میں پاکستان کی کارکردگی مسلسل زوال کا شکار ہے جس نے نہ صرف پاکستانی شائقین بلکہ بالعموم پوری دنیا کو حیرت میں ڈال دیا ہے کہ کیا یہ وہی ٹیم ہے جو ابھی کچھ عرصہ پہلے دنیائے ٹی ٹوئنٹی پر راج کیا کرتی تھی؟

گزشتہ سال بنگلہ دیش کے دورے پر شکست اور اس کے بعد گزشتہ چند ماہ میں انگلستان اور پھر ایشیا کپ میں بنگلہ دیش ہی کے ہاتھوں شکست کے بعد پاکستان کو ورلڈ ٹی ٹوئنٹی 2016ء کے کمزور ترین حریفوں میں شمار کیا جا رہا ہے۔ کیا یہ بات انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتی ہے؟ شاید ایسا سوچنے والے یہ بھول گئے ہیں کہ پاکستان 'کبھی بھی، کچھ بھی' کرنے کی صلاحت رکھتا ہے۔

پاکستان کی خوش قسمتی یہ ہے کہ اسے باصلاحیت کھلاڑیوں کی کبھی کمی نہیں رہی لیکن المیہ یہ ہے کہ کبھی بھی اس ٹیلنٹ کا درست استعمال نہیں کیا جا سکا۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کو حیران کر دینے والے کھلاڑی کچھ عرصہ منظر عام پر رہتے ہیں اور پھر ایسے غائب ہوتے ہیں کہ کسی کو خبر نہیں ہوتی۔ ایسے ہی کھلاڑیوں کی کارکردگی کی وجہ سے شاید یہ گمان کیا جا رہا ہے کہ پاکستان 'میگا ایونٹ' میں ناکام ہوجائے گا لیکن یہ مت بھولیں کہ میچ والے دن پاکستان کچھ بھی کر سکتا ہے۔ عالمی کپ 2015ء یاد ہے نا؟ پاکستان نے جنوبی افریقہ کو ہرایا تھا۔

ابھی چند روز قبل پاکستان کے سابق کپتان، اور افغانستان کے موجودہ ہیڈکوچ، انضمام الحق نے کہا تھا کہ یہ بات درست ہے کہ پاکستان اس وقت شدید مشکلات کا شکار ہے لیکن اس کے باوجود وہ یہ ماننے کو تیار نہیں کہ پاکستان ایک آسان حریف ثابت ہوگا۔ اُسی پروگرام میں بھارت کے سابق کپتان کپل دیو نے قومی ٹیم کے بارے میں کہا کہ پاکستان کی موجودہ ٹیم کے پاس وہ سب کچھ ہے، جو کسی بھی اچھے دستے کے لیے ضروری ہوتا ہے، بس ضرورت ہے تو ایسے فرد کی جو اِس ٹیم میں چھپے ٹیلنٹ کو باہر لاسکے اور اِس کام کے لیے اُنہوں نے عمران خان کا نام لیا۔ وسیم اکرم نے قومی ٹیم کے لیے کہا کہ پاکستان کے گیند باز تو شروع سے ہی اپنی صلاحیتوں سے بڑھ کر کارکردگی دکھاتے آرہے ہیں، بس اب بلے بازوں کو چاہیے کہ گھبراہٹ کا شکار ہونے کے بجائے حوصلہ رکھیں اور رنز بنائیں۔ اگر ایسا ہوگیا تو پاکستان کی جیت میں کوئی اور رکاوٹ ہرگز نہیں۔ اسی پروگرام میں یہ نقطہ بھی چھیڑا گیا کہ ایسا سننے میں آرہا ہے کہ کپتان شاہد آفریدی اور کوچ وقار یونس کے درمیان کچھ کشیدگی پائی جاتی ہے، جس پر تقریباً تمام ہی لوگوں کی رائے یہ تھی کہ اگر ایسا کچھ معاملہ ہے تو یہ یقیناً پاکستانی ٹیم کے لیے اچھی خبر نہیں ہے۔

پاکستان کی کارکردگی کا جائزہ لیں تو آغاز بلے بازی سے ہی ہونا چاہیے کیونکہ یہ بلے باز ہی تھے جو ایشیا کپ میں رسوائی کا سبب بنے تھے۔ اُس پورے ایونٹ میں شعیب ملک اور سرفراز احمد ہی ایسے دو کھلاڑی تھے جنہوں نے کچھ ذمہ داری کا مظاہرہ کیا، لیکن صرف اِن دونوں پر تکیہ نہیں کیا جاسکتا، بلکہ ہر ایک کھلاڑی کو اپنی اپنی ذمہ داری کو سمجھنا ہوگا۔ بڑے ایونٹ میں اپنی صلاحیتوں سے بڑھ کر کارکردگی دکھانے کی ضرورت ہے، اگر ایسا ہوگیا یقیناً پاکستان مخالفین کے لیے تر نوالہ ثابت نہیں ہوگا۔

پھر گیند بازی کا شعبہ اگرچہ بلے بازی کے مقابلے میں بہت زیادہ مضبوط ہے، لیکن وہاں بھی "سب ٹھیک" نہیں ہے۔ محمد عامر کو ایک طرف کردیا جائے تو مشکلات حقیقی تصویر ابھرتی ہے۔ جیسے وہاب ریاض کے پاس رفتار تو ہے لیکن اِس رفتار کو جس سوئنگ کی ضرورت ہے وہ بالکل بھی نظر نہیں آرہی ۔ پھر محمد عرفان نے اگرچہ ایشیا کپ میں اچھی گیند بازی کے ذریعے بلے بازوں کو پریشان تو کیا، مگر وکٹوں کے حصول پر اب بھی سوالیہ نشان ہے۔ پھر محمد سمیع کے پاس تجربہ ہے، رفتار ہے لیکن اعصاب نہیں۔ جب بھی اُن پر دباؤ آتا ہے ہاتھ پیر پھول جاتے ہیں اور نتیجہ پاکستان کے لیے ناقابل تلافی نقصان۔

پھر ایک اہم شعبہ جس میں برتری کی کافی عرصے سے اور سخت ضرور ہے وہ فیلڈنگ ہے۔ ایشیا کپ میں بھی ہم نے دیکھا کہ کس طرح ایک کی جگہ دو رنز بنے، کس طرح کیچ گرائے گئے اور مواقع ضائع کیےگئے۔ اگریہ سلسلہ ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں بھی جاری رہا تو اللہ ہی حافظ ہے۔ اس وقت ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں چھوٹی موٹی ٹیمیں یہاں تک کہ آئرلینڈ، اسکاٹ لینڈ، زمبابوے اور عمان تک غیر معمولی فیلڈنگ دکھا رہے ہیں جو پاکستان کے کھلاڑیوں کو آئینہ دکھانے کے لیے کافی ہے۔

بات کو سمیٹیں تو بس اتنی ہوگی کہ جس طرح ایشیا کپ کھیلا ہے، ایسی کارکردگی کا مظاہرہ تو سوائے شکست کے کسی طرف نہیں لے جائے گا۔ سوچ کو بدلیں، رویے میں تبدیلی لائیں، اپنی صلاحیتوں سے انصاف کرتے ہوئے کھیلیں تو کوئی بعید نہیں کہ پاکسان 2009ء کی تاریخ دہرانے میں بھی کامیاب ہو جائے۔