ورلڈ ٹی ٹوئنٹی، کھلاڑی جو توجہ کا مرکز رہیں گے

0 1,145

گو کہ ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے کوالیفائنگ مرحلے کا آغاز ہوچکا ہے لیکن شائقین کرکٹ نظریں اگلے مرحلے پر ہیں، جسے "سپر 10" کا نام دیا گیا ہے۔ چار روز بعد ہمیں وہ لمحات دیکھنے کو ملیں گے جب دنیا کی صفِ اول کی ٹیمیںآپس میں ٹکرائیں گی۔ جہاں بلے باز اور گیند بازوں کے درمیان گھمسان کا رن پڑے گا، کبھی بیٹسمین سرخرو ہونگے تو کبھی گیند باز حاوی آئیں گے۔ لگ بھگ تین ہفتے جاری رہنے والی اِس کشمکش میں پانچ ایسے کھلاڑی ہوں گے، جو سب کی توجہ کا مرکز بنے رہیں گے۔آئیے اُن کھلاڑیوں پر ایک نظر ڈالتے ہیں:

محمد عامر

mohammad-amir

جب محمد عامر اسپاٹ فکسنگ کے جرم میں پانچ سال پابندی بھگتنے کے بعد واپس آئے تو اکثریت کا یہی خیال تھا کہ اتنے عرصے تک کرکٹ سے باہر رہنے کے بعد ان کی صلاحیتوں کو زنگ لگ گیا ہوگا اور ذہنی طور پر متاثر ہونے کی وجہ سے ان کی کارکردگی پر بھی منفی اثرات مرتب ہوئے ہوں گے۔ لیکن نیوزی لینڈ کے دورے سے بین الاقوامی کرکٹ میں واپس آنے والے عامر ہر گزرتے دن کے ساتھ نکھرتے چلے جا رہے ہیں۔ ایشیا کپ میں صرف محمد عامرکی کارکردگی سے اب پاکستان کے بارے میں دنیا کا تصور مختلف ہونے لگا ہے۔ اب یہی خیال کیا جا رہا ہے کہ اگر محمد عامر پر قابو پا لیا جائے تو پاکستان کے خلاف جیتنا بہت زیادہ مشکل نہ ہوگا۔ ایشیا کپ میں عامر نے چار مقابلوں میں 7 وکٹیں حاصل کیں جس میں انہوں نے متحدہ عرب امارات کے خلاف وہ ریکارڈ بھی قائم کیا جس میں 24 میں سے 21 گیندوں پر کوئی رن نہ بنے دیا۔ بھارت کے میدانوں پر عامر وہی کردار ادا کر سکتے ہیں جو 2012-13ء میں پاکستان کے دورۂ بھارت پر جنید خان نے ادا کیا تھا۔

کرس گیل

chris-gayle
کرس گیل کی صلاحیتوں سے کون واقف نہیں؟ اُن کی طاقت کا اندازہ بھلا کس کو نہیں ؟ ابھی جنوری ہی کی تو بات ہے جب انہوں نے بگ بیش لیگ کے دوران 12 گیندوں پر نصف سنچری بنا کر ریکارڈ قائم کیا تھا۔ وہ میدان میں تو حریف پر حاوی رہتے ہی ہیں، لیکن میدان سے باہر خبروں میں رہنے کا کوئی موقع بھی ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ بہرحال، یہ سب تو چلتا رہتا ہے لیکن شائقین کرکٹ کو انتظار ہے اُن کے فلک شگاف چھکوں کا۔ جس دن گیل چل پڑے تو 2012ء کی تاریخ دہرانا ویسٹ انڈیز کے لیے مشکل نہ ہوگا۔ گو کہ ابھی گزشتہ ماہ وہ پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) میں ترنگ میں نظر نہیں آئے، لیکن شائقین کرکٹ پراُمید ہیں کہ ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں وہ اپنا حقیقی جلوہ ضرور دکھائیں گے۔ پھر بھارت کے میدان ان کے لیے نامانوس نہیں ہیں۔ انڈین پریمیئر لیگ میں وہ یہاں درجنوں کارنامے انجام دے چکے ہیں۔

ویراٹ کوہلی

virat-kohli
دنیا کا بہترین بلے باز اور اس وقت بہترین فارم میں بھی، ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں ویراٹ کوہلی کو دیکھنا ایک خوبصورت منظر ہوگا۔ ویراٹ اپنی آخری سات ٹی ٹوئنٹی اننگز کچھ یوں رنز بنائے ہیں: 90*، 59*، 50، 7، 49، 56* اور 41*، مزید کچھ بتانے کی ضرورت رہ گئی ہے؟ ابھی حالیہ ایشیا کپ کے مقابلوں میں بھی انہوں نے لگ بھگ تمام ہی میچز میں بھارت کی کامیابی میں کلیدی کردار ادا کیا۔ پاکستان کے خلاف ان کے فاتحانہ 49 رنز کون بھلا سکتا ہے جب کوئی بھارتی بلے باز محمد عامر کے سامنے ٹکتا ہوا نہیں دکھائی دے رہا تھا۔ اگر وہ اسی طرح کھیلتے رہے تو ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں بھارت کو شکست دینا دنیا کی کسی بھی ٹیم کے لیے بہت مشکل کام ہوگا۔

اے بی ڈی ولیئرز

AB-de-Villiers
کسی بھی بلے باز کے خلاف فیلڈنگ طے کرتے ہوئے ان کی کمزوریوں کو ملحوظ رکھا جاتا ہے، لیکن ابراہم ڈی ولیئرز کا معاملہ مختلف ہے۔ وہ ایسے بلے باز ہیں جو میدان میں ہر طرف بالکل اُسی اعتماد سے شاٹ کھیلتے ہیں جیسے وہی ان کا بہترین شاٹ ہو۔ "مسٹر 360 ڈگری" ڈی ولیئرز کسی بھی حریف کی تباہی کا پورا سامان رکھتے ہیں۔ اگر ان کا بلّا چل جائے تو پھر مخالف کو اپنے دل سے جیت کی خواہش نکال دینی چاہیے۔ ڈی ولیئرز کے ریکارڈز ہی ان کی عظمت کے عکاس ہیں، ایک روزہ میں 16 گیندوں پر نصف سنچری، 31 گیندوں پر سنچری اور 64 گیندوں پر 150 رنز کے تینوں ریکارڈز انہی کے پاس ہیں۔ انڈین پریمیئر لیگ میں کھیلنے کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں اس لیے بھارت کی وکٹوں کا بھی بخوبی اندازہ ہے۔ اس لیے ہمارا آپ کو مشورہ ہے کہ ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں جنوبی افریقہ کے ڈی ولیئرز کی بلے بازی دیکھنا ہرگز مت بھولیے گا۔

بین اسٹوکس

ben-stokes
وہ آیا اور چھا گیا، بین اسٹوکس نے 2016ء کا آغاز جنوبی افریقہ کے خلاف ٹیسٹ کی دوسری تیز ترین ڈبل سنچری اننگز کے ذریعے کیا ہے اور اب انگلستان کے اس کھلاڑی پر سب کی نظریں ہیں۔ اسٹوکس کا کمال یہ ہے کہ وہ صرف بلے سے نہیں بلکہ گیند سے بھی اپنا بھرپور کردار ادا کرے ہیں۔ اسٹوکس این بوتھم کے بعد انگلستان کے پہلے کھلاڑی ہیں کہ جنہوں نے بیرون ملک کسی سیریز میں 350 سے زیادہ رنز بنائے ہوں اور 12 وکٹیں بھی حاصل کی ہوں۔ اس لیے ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں انگلستان کو اسٹوکس سے بڑی امیدیں ہیں جبکہ باقی دنیا بھر کے شائقین کے لیے انہیں کھیلتے دیکھنا بہت پرلطف ہوگا۔