ورلڈ ٹی ٹوئنٹی 2016ء کے کانٹے دار مقابلے

0 1,105

یہ بات صد فی صد درست ہے کہ ٹی ٹوئنٹی کرکٹ نے شائقین کے لیے بہت آسانی کردی ہے کہ تین گھنٹے میں پورا مقابلہ مکمل ہوجاتا ہے، لیکن اِس کے باوجود آج کی بھاگتی دوڑتی زندگی میں یہ کسی کے لیے بھی ممکن نہیں کہ وہ ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے ایک، ایک میچ کو مکمل طور پر دیکھ سکے۔ اسی کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ ہم نے ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے "سپر 10" مرحلے کے ایسے پانچ مقابلوں کا انتخاب کیا ہے جن کے بارے میں خیال کیا جارہا ہے وہ عالمی چیمپئن شپ کے بہترین مقابلے ہوں گے۔ اس لیے ان مقابلوں کی تاریخیں اور وقت اپنے پاس نوٹ کرلیجیے، اور کسی بھی طور پر اِن لمحات کو ضائع نہ ہونے دیں۔

آسٹریلیا بقابلہ نیوزی لینڈ، 18 مارچ

australia-vs-new-zealand
گوکہ تینوں طرز کی کرکٹ میں نتائج کے اعتبار سے آسٹریلیا کو نیوزی لینڈ پر فوقیت حاصل ہے لیکن عالمی کپ 2011ء سے اب تک نیوزی لینڈ نے شاندار کھیل کا مظاہرہ کیا ہے اور بلاشبہ ہر حریف کے لیے خطرے کی گھنٹی بجائی ہے۔ لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ فروری 2010ء سے لے کر آج تک، یعنی گزشتہ چھ سالوں میں دونوں ٹیموں کے درمیان کوئی مقابلہ نہیں ہوا۔ وہ مقابلہ بھی کیا شاہکار تھا کہ جو برابر ہوا اور پھر سپر اوور میں نیوزی لینڈ نے کامیابی حاصل کی تھی۔

یہ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ ہی تھے کہ جن کے درمیان 2005ء میں تاریخ کا پہلا ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل کھیلا گیا تھا جہاں آسٹریلیا نے کامیابی حاصل کی تھی۔ مجموعی طور پر دونوں ٹیموں کے پانچ مقابلے ہوئے ہیں جن میں چار میں آسٹریلیا نے کامیابی حاصل کی ہے۔ البتہ ان میں سے کوئی مقابلہ بھی ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کا نہیں ہے۔ اس لیے 18 مارچ کو دھرم شالا میں ہونے والا مقابلہ بہت اہمیت رکھتا ہے۔ دونوں ٹیموں کی شاندار حالیہ کارکردگی کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ یہ ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے بہترین مقابلوں میں سے ایک ہوگا۔

جنوبی افریقہ بمقابلہ انگلستان، 18 مارچ

south-africa-vs-england
آسٹریلیا کے خلاف تین ٹی ٹوئنٹی مقابلوں کی سیریز سے قبل انگلستان جنوبی افریقہ کے دورے پر تھا جہاں دونوں ٹی ٹوئنٹی میچز میں کامیابی 'پروٹیز' کو ملی تھی۔ اس لیے ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے اس اہم مقابلے میں بھی جنوبی افریقہ کو ہی مضبوط حریف تصور کیا جا رہا ہے۔

ٹی ٹوئنٹی بین الاقوامی کرکٹ میں دونوں ٹیمیں اب تک 11 مرتبہ آمنے سامنے آ چکی ہیں، جن میں جنوبی افریقہ کو 7 فتوحات کے ساتھ فوقیت حاصل ہے۔ انگلستان صرف تین بار فاتح رہا ہے، جبکہ ایک مقابلہ بغیر کسی نتیجے تک پہنچے ختم ہوا۔ لیکن ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں نجانے کب کیا ہوجائے، کسی کو کیا خبر؟ اس لیے میچ کے نتیجے کے بارے میں تو کوئی پیشن گوئی نہیں کی جاسکتی لیکن یہ طے ہے کہ مقابلہ ہوگا کانٹے دار!

اس اہم مقابلے کا میزبان ممبئی کا وانکھیڑے اسٹیڈیم ہوگا جہاں جنوبی افریقہ نے آخری مقابلہ بھارت کے خلاف ایک روزہ کی صورت میں کھیلا تھا۔ کوئنٹن ڈی کوک، فف دو پلیسی اور ابراہم ڈی ولیئرز کی سنچری اننگز کی بدولت کامیابی حاصل کی اور سیریز بھی جیت لی تھی۔ اس لیے 18 مارچ کی شام 7 بجے یہ مقابلہ ضرور دیکھیے گا کہ جنوبی افریقہ اپنی برتری ثابت کرتا ہے یا انگلستان بڑے مقابلے میں بڑا میدان مارتا ہے۔

پاکستان بمقابلہ بھارت، 19 مارچ

بھلا یہ بھی ممکن ہے کہ بات اہم ترین مقابلوں کی ہو اور پاک-بھارت میچ کا ذکر نہ ہو؟ روایتی حریفوں کے مقابلے کو یہ خاص اہمیت حاصل ہے کہ دنیائے کرکٹ میں سب سے زیادہ نگاہیں اسی میچ پر ہوتی ہیں۔ گزشتہ عالمی کپ میں پاک-بھارت مقابلے کو ریکارڈ سب سے زیادہ ناظرین نے دیکھا۔ بدقسمتی یہ ہے کہ دونوں ممالک کی سرد جنگ کی وجہ سے باہمی مقابلے شاذ و نادر ہی ہوتے ہیں۔ لیکن اس مرتبہ ایک مہینے کے عرصے میں دوسری بار روایتی حریفوں کا سامنا ہوگا۔ پہلا مقابلہ چند ہفتے قبل ایشیا کپ میں ہوا تھا جہاں پاکستان کو بدترین شکست کا سامنا ہوا اور اب ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں 19 مارچ کو کلکتہ میں پاکستان اور بھارت مقابل ہوں گے۔ یقیناً جہاں پاکستان ایشیا کپ کی شکست کا بدلہ لینے کے لیے بے تاب ہوگا، وہیں بھارت فتوحات کے تسلسل کو جاری رکھنے کی کوشش کرے گا۔

دونوں ممالک کے درمیان اب تک 7 ٹی ٹوئنٹی مقابلے ہو چکے ہیں، جن میں بھارت کو پانچ میں کامیابی نصیب ہوئی ہے، جبکہ پاکستان کو صرف ایک فتح ملی ہے۔ اس طرز کی کرکٹ میں دونوں کا مقابلہ مقابلہ ٹائی ہوگیا تھا لیکن 'بال آؤٹ' اصول کے مطابق کامیابی بھارت ہی کو ملی۔

اعداد و شمار کو دیکھتے ہوئے نرم سے نرم الفاظ میں بھارت کے خلاف پاکستان کے ٹی ٹوئنٹی ریکارڈ کو’بدترین‘ کہنا چاہیے۔ لیکن کیونکہ سیکورٹی وجوہات کی بنیاد پر آئندہ پاک بھارت مقابلہ دھرم شالا سے کلکتہ منتقل ہوا ہے تو امید کی ایک کرن ضرور نظر آ رہی ہے۔ ایڈن گارڈنز پاکستان کے لیے خوش نصیب میدان ہے جہاں گو کہ اب تک دونوں ٹیموں کا کوئی ٹی ٹوئنٹی مقابلہ نہیں کھیلا گیا لیکن چار ایک روزہ میچز میں ہمیشہ کامیابی پاکستان کے نام رہی ہے۔

تو آپ کی طرح ہم بھی 19 مارچ شام 7 بجے اپنی تمام مصروفیات ترک کردیں اور نظریں پاک-بھارت مقابلے پر جما لیں۔

جنوبی افریقہ بمقابلہ ویسٹ انڈیز، 25 مارچ

south-africa-west-indies
چوکوں اور چھکوں کے بغیر ٹی ٹوئٹی ایسے ہی ہے جیسے بغیر شکر کے میٹھا بنانا۔ اس لیے اگر آپ دنیائے کرکٹ کے سب سے بڑے 'ہٹرز' کو دیکھنا چاہتے ہیں تو کلینڈر پر 25 مارچ کی تاریخ پر نشان لگا لیں۔ جب جنوبی افریقہ اور ویسٹ انڈیز ناگپور میں مقابل ہوں گے۔ یہ وہ ٹیمیں ہیں جن کا جب بھی آمنا سامنا ہوا ہے، رنز کے سیلاب بہہ نکلے ہیں۔ ابراہم ڈی ولیئرز کی تیز ترین سنچری اور تیز ترین 150 رنز کی اننگز بھی ویسٹ انڈیز ہی کے خلاف تھیں جبکہ دنیائے ٹی ٹوئنٹی کی پہلی سنچری کرس گیل نے جنوبی افریقہ ہی کے خلاف بنائی تھی۔

ٹی ٹوئنٹی بین الاقوامی کرکٹ کی تاریخ میں اگر کسی مقابلے میں سب سے زیادہ رنز بنے ہیں تو حریف یہی جنوبی افریقہ اور ویسٹ انڈیز تھا۔ جنوری 2015ء میں ڈربن ہونے والے مقابلے میں دونوں ٹیموں نے کل ملا کر 467 رنز بنائے جس میں جنوبی افریقہ نے پہلے کھیلتے ہوئے 231 رنز اسکور کیے اور ویسٹ انڈیز نے گیل کے 41 گیندوں پر 90 رنز کی بدولت ہدف چار گیندیں پہلے ہی حاصل کرلیا۔

ویسے نتائج کے اعتبار سے جنوبی افریقہ کا پلڑا بھاری ہے جس نے 9 ٹی ٹوئنٹی مقابلوں میں 6 فتوحات حاصل کی ہیں۔ پھر بھی ہمیں امید ہے کہ یہ میچ بہت دلچسپ ہوگا۔

بھارت مقابلہ آسٹریلیا، 27 مارچ

india-australia
دنیائے کرکٹ کی دو بڑی ٹیمیں بھارت اور آسٹریلیا جب بھی آمنے سامنے آتی ہیں تو شائقین کرکٹ کی دلچسپی دیدنی ہوتی ہے۔ پھر فتح کے حصول کے لیے دونوں ٹیموں کی جدوجہد بھی قابل دید ہوتی ہے۔ اب دونوں دونوں 12 ٹی ٹوئنٹی مقابلوں میں ایک دوسرے کا سامنا کر چکے ہیں اور بھارت کا ریکارڈ یہاں بھی بہت شاندار ہے، 12 میں سے 8 میچز میں کامیابی حاصل کی ہے جس میں آسٹریلیا کے خلاف حالیہ سیریز میں تین-صفر کی کلین سویپ فتح بھی شامل ہے۔ جنوری میں آسٹریلیا کی سرزمین پر ہونے والی اس سیریز میں بھارت نے آسٹریلیا کو کھل کر کھیلنے کا موقع ہی نہ دیا اور ثابت کیا کہ وہ ٹی ٹوئنٹی کا عالمی چیمپئن بننے کا سب سے مضبوط امیدوار ہے۔

27 مارچ کو موہالی میں ہونے والے مقابلے میں بھی یقیناً بھارت کا پلڑا ہی بھاری ہوگا کیونکہ آسٹریلیا کو تین-صفر، پھر سری لنکا کو دو-ایک اور اس کے بعد ایشیا کپ میں ناقابل شکست رہتے ہوئے اعزاز حاصل کرکے بھارت کا اعتماد بلندیوں پر ہے۔ بہرحال، بھارت سے شکست کھانے کے بعد آسٹریلیا نے جنوبی افریقہ کو اس کے گھر میں جاکر شکست دی ہے یعنی آسٹریلیا بھی کھویا ہوا اعتماد حاصل کر چکا ہے۔ اس لیے حالات و واقعات کی روشنی میں ہمیں زبردست مقابلے کی توقع رکھنی چاہیے۔ تاریخ تو آپ نے دیکھ ہی لی، اس مقابلے کا وقت بھی شام 7 بجے ہوگا۔