کپتان ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے

0 1,130

جس کا تھا انتظار، آ گیا وہ شاہکار!! بھارت اور نیوزی لینڈ کے درمیان مقابلے کی پہلی گیند پھینکتے ہی ورلڈ ٹی ٹوئنٹی 2016ء کے اہم ترین مرحلے کا باضابطہ آغاز ہو چکا ہے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ آئندہ 18 دنوں تک جاری رہنے والی معرکہ آرائی سے کون حتمی فاتح بن کر نکلے گا۔ دل میں تو خواہش تو یہی ہے کہ 2009ء کی تاریخ ایک مرتبہ پھر دہرا دی جائے لیکن تمنا رکھنا آسان ہے اور درحقیقت منزل پانا بہت مشکل۔

ماضی کی نسبت اس بار کسی ایک ٹیم کے بارے میں یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ 3 اپریل کو کلکتہ کے ایڈن گارڈنز میں ٹرافی اس کا کپتان اٹھائے گا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس وقت دنیا کی ہر ٹیم اور اس کا ہر کپتان پریشانی میں مبتلا ہے کہ آخر اسے کامیابی کے لیے کون سے فیصلے اٹھانے چاہئیں۔ ان کپتانوں کی اپنی کیا خوبیاں ہیں اور خود کس پائے کے کھلاڑی ہیں، آئیے آپ کو ان کے بارے میں بتاتے ہیں اور اندازہ لگاتے ہیں کہ کس میں کتنا دم ہے۔

شاہد آفریدی

کپتانوں کی بات ہو تو بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ پہلے "لالا" کی بات نہ کی جائے۔ ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کا رواج شروع ہوئے ابھی دس گیارہ برس ہی ہوئے ہیں، لیکن یہ کرکٹ کھیلی کس طرح جاتی ہے؟ یہ شاہد آفریدی نے 20 سال پہلے ہی بتا دیا تھا وہ بھی اپنی پہلی ہی اننگز میں، صرف 37 گیندوں پر تیز ترین سنچری بنا کر۔ وہ مختصر طرز کی کرکٹ کھیلنے کے ماہر ہیں، بلکہ اُن کو تو "بانی" کہنا چاہیے۔ لیکن ان کا 'ازلی' مسئلہ غیر مستقل مزاجی ہے۔ اگر یہ خرابی آفریدی میں نہ ہوتی تو شاید اُن کا شمار دنیا کے بہترین بلے بازوں میں ہوتا ۔ اِس کمی کے باوجود وہ اپنے وسیع تجربے کی وجہ سے کچھ نمایاں ہیں۔ ٹی ٹوئنٹی کیرئیر تو شاہد آفریدی اب تک 17 کی اوسط سے 1315 رنز بنا چکے اور اُن کی سب سے بڑی انفرادی اننگ 54 رنز پر محیط تھی۔ آفریدی صرف بلے سے ہی نہیں، بلکہ گیند سے بھی حریف کی لیے خوف کی علامت بن جاتے ہیں۔ انہوں نے 94 ٹی ٹوئنٹی مقابلوں میں 93 وکٹیں لی ہیں، جو دنیا کے کسی بھی گیندباز سے زیادہ ہیں۔ 11 رنز کے عوض چار کھلاڑیوں کو آؤٹ کرنا ان کی بہترین کارکردگی ہے۔ اگر شاہد آفریدی ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں اپنی صلاحیتوں کے مطابق کھیل پیش کرنے میں کامیاب ہوگئے تو 2009ء کی طرح یہاں بھی پاکستان کو جیتنے سے کوئی نہیں روک پائے گا۔

مہندر سنگھ دھونی

اگر یہ کہا جائے کہ بھارت کی کرکٹ آج جس مقام پر ہے، اس میں بہت بڑا کردار مہندر سنگھ دھونی کا ہے تو ہرگز غلط نہ ہوگا۔ 2007ء میں انہی کی قیادت میں بھارت نے پہلا ورلڈ ٹی ٹوئنٹی جیتا تھا اور پھر یہ انہی کا کمال تھا کہ بھارت نے ایک روزہ عالمی کپ بھی جیتا، چیمپئنز ٹرافی بھی حاصل کی، ایشیا کپ ٹرافی بھی اٹھائی اور ٹیسٹ درجہ بندی میں سرفہرست مقام بھی ایک سے زيادہ مرتبہ حاصل کیا۔ صرف قیادت ہی نہیں بلکہ وکٹ کیپنگ اور ساتھ ساتھ جارحانہ بلے بازی بھی دھونی کا خاصہ ہے۔ 63 مقابلوں میں وہ 34 کے اوسط سے 918 رنز بنا چکےہیں جبکہ وکٹوں کے پیچھے ان کے شکاروں کی تعداد 47 ہے۔ ان کی زیر قیادت بھارت اس وقت بلاشبہ ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے لیے سب سے مضبوط امیدوار ہےاور کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ بھارت ایک مرتبہ پھر عالمی چیمپئن نہ بنے۔

فف دو پلیسی

دنیا کی بدقسمت ترین ٹیم کے قائد۔ بین الاقوامی کرکٹ کونسل کے ہر بڑے ایونٹ میں جنوبی افریقہ مضبوط ترین امیدوار کے طور پر میدان میں اترتا ہے لیکن کبھی اعزاز کے قریب بھی نہیں پہنچا، سوائے ایک مرتبہ کی چیمپئنز ٹرافی کے۔ اس بار بھی ایسا ہی ہے لیکن فف دو پلیسی کی زیر قیادت جنوبی افریقہ بہت مضبوط دکھائی دیتا ہے۔ ابراہم ڈی ولیئرز جیسا بلے باز، ہاشم آملا جیسا ان کا ساتھی اور پھر ڈیل اسٹین جیسا تجربہ کار گیندباز، خود فف کی اپنی کارکردگی جاندار ہے جبکہ نوجوان کوئنٹن ڈی کوک بھی خوب چل رہے ہیں۔ اگر کپتان اچھا کھیلے تو کھلاڑیوں کی ہمت بھی بندھتی ہے اور فف اس میں پیچھے نہیں۔ 30 مقابلوں میں 41 سے زیادہ کے اوسط کے ساتھ 991 رنز ان کے کھاتے میں موجود ہیں جن میں ایک سنچری بھی شامل ہے۔ اگر "میگا ایونٹ" میں وہ اسی طرح کھیلتے رہے تو جنوبی افریقہ پہلی بار ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے فائنل تک بھی پہنچ سکتا ہے۔

اینجلو میتھیوز

کمار سنگاکارا اور مہیلا جے وردھنے کا دنیائے کرکٹ سے رخصت ہو جانا کم تھا کہ سری لنکا کو ورلڈ ٹی ٹوئنٹی سے قبل کپتان لاستھ مالنگا کے زخمی ہونے کا صدمہ بھی سہنا پڑا ہے۔ اب اینجلو میتھیوز کپتان ہے، ان پر دوہرا دباؤ ہے۔ ایک تو ماضی کے مقابلے میں کمزور ٹیم کے ساتھ میدان میں اترنا اور اس سے بھی بڑا یہ کہ اعزاز کا دفاع کرنا۔ میتھیوز اب تک 26 مقابلوں میں 862 رنز بنا چکے ہیں اور 33 وکٹیں لے چکے ہیں۔ گو کہ وہ مرد بحران کا کردار خود ادا کرتے ہیں لیکن آجکل بری طرح فارم سے باہر ہیں۔ نئے کھلاڑیوں کے ساتھ تال میل ابھی تک اس طرح بن نہیں سکا، جیسا بن جانا چاہیے تھا۔ اس لیے میتھیوز کو تن تنہا کامیابی دلا کر اپنے اور کھلاڑیوں کے اعتماد میں اضافہ کرنا ہوگا جو ایک مشکل کام ہوگا لیکن ہمت مرداں مدد خدا!

اسٹیون اسمتھ

CRICKET-NZL-PAK

بات کارکردگی کی ہو یا بڑے اعزازات کی، آسٹریلیا ہر لحاظ سے دنیا کی بہترین ٹیموں میں شمار ہوتی ہے۔ البتہ ٹی ٹوئنٹی کو آسٹریلیا نے کبھی سنجیدہ نہیں لیا اور یہی وجہ ہے کہ آج تک ایک مرتبہ پھر عالمی ٹی ٹوئنٹی چیمپئن نہیں بن سکا۔ دیگر فارمیٹس میں آسٹریلیا ایک کپتان بناتا ہے، اعتماد کرتا، چلاتا ہے اور نتائج حاصل کرتا ہے لیکن ٹی ٹوئنٹی میں معاملہ الٹ ہے۔ کپتان بدلتے رہتے ہیں، توجہ بٹتی رہتی ہے۔ ابھی کچھ مہینے پہلے قیادت آرون فنچ کے پاس تھی اب ان کی جگہ ٹیسٹ اور ایک روزہ کپتان اسٹیون اسمتھ کو ذمہ داری سونپی گئی ہے یعنی "دنیا کو ہر فارمیٹ کے لیے الگ کپتان" کے راستے پر چلا کر خود آسٹریلیا ہر طرز کی کرکٹ میں ایک ہی کپتان بنا چکا ہے۔ اسٹیون اسمتھ ایسے کھلاڑی ہیں، جو خود بھی لڑتے اور کھلاڑیوں کو بھی آخری وقت تک لڑانا سکھاتے ہیں۔ تجربہ کم ہے لیکن عمل سو فیصد ہے۔ 26 مقابلوں میں بنائے گئے 304 رنز میں 90 رنز کی ایک شاندار اننگز بھی شامل ہے۔ ویسے تو آسٹریلیا کے لیے حالات ابھی خاص اچھے نہیں تھے۔ اسے بھارت کے ہاتھوں اپنے ہی ملک میں تین-صفر کی شکست ہوئی پھر جنوبی افریقہ پہنچ کر بھی اسے ہار کا منہ دیکھنا پڑا لیکن آخری دونوں ٹی ٹوئنٹی مقابلوں میں شاندار انداز میں واپسی کی اور جیت کر سیریز حاصل کرلی۔ یہ کامیابی ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے لیے آسٹریلیا کے حوصلوں کو بلند کر سکتی ہے۔ بہرحال، اسمتھ کی اپنی کارکردگی اور آسٹریلیا کا فتوحات کی راہ پر گامزن ہو جانا ظاہر کرتا ہے کہ ایک روزہ کا عالمی چیمپئن اب ٹی ٹوئنٹی میں بھی اعزاز حاصل کرنے کے لیے فیورٹ ہے۔

کین ولیم سن

دو سال قبل نیوزی لینڈ کی کارکردگی اور آج، موازنہ کیاجائے تو یقین نہ آئے کہ یہ وہی ٹیم ہے۔ برینڈن میک کولم کی جارحانہ حکمت عملی نے نیوزی لینڈ کو زمین سے آسمان تک پہنچا دیاہے لیکن ورلڈ ٹی ٹوئنٹی سے عین پہلے میک کولم نے کرکٹ کو ہی خیرباد کہہ دیا۔ اب یہ ذمہ داری کین ولیم سن کے سرہے جو یقیناً ان کے لیے بہت بڑا امتحان ہے۔ لیکن جس شاندار فارم میں اس وقت نیوزی لینڈ ہے اور خود ولیم سن بھی، اس سے دباؤ میں کمی آئے گی۔ 30 مقابلوں میں 31 کے اوسط سے 844 رنز بنا چکے ہیں لیکن بلے بازی سے زیادہ انہیں قائدانہ صلاحیتوں کا استعمال کرنا ہوگا، خاص طور پر بھارت کے مشکل حالات میں کہ جہاں نیوزی لینڈ بمشکل ہی سنبھل پاتا ہے۔

ایون مورگن

گو کہ انگلستان کبھی ایک روزہ کا عالمی چیمپئن نہیں بنا لیکن 2010ء میں ورلڈ ٹی ٹوئنٹی ضرور جیت رکھا ہے۔ گزشتہ سال عالمی کپ میں بدترین شکست کے بعد انگلستان کی "تجدید" ہوئی ہے اور کافی عرصے سے کھلاڑی مکمل ترنگ میں نظر آ رہے ہیں۔ اس لیے محسوس ہو رہا ہے کہ کم از کم سیمی فائنل تک تو انگلستان رسائی حاصل کر سکتا ہے۔ کپتان ایون مورگن خود بڑے زبردست کھلاڑی ہیں۔ 56 مقابلوں میں 30 کا اوسط اور 7 نصف سنچریوں کے ساتھ 1333 رنز، ان کی صلاحیتوں کو ثابت کرتے ہیں۔ جنوبی افریقہ کے خلاف سیریز میں شکست کے باوجود انگلستان اس بار کچھ کر دکھانے کا عزم رکھتا ہے اور مورگن اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے خود پیش پیش ہوں گے۔

ڈیرن سیمی

ٹیسٹ اور ایک روزہ میں کمزور ترین ٹیم بھی ٹی ٹوئنٹی میں خطرناک بن جاتی ہے، یہاں تک کہ نیدرلینڈز اور آئرلینڈ نے بھی کئی کارنامے دکھائے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اپنے بدترین زوال کے باوجود ویسٹ انڈیز ٹی ٹوئنٹی میں ہمیشہ سخت حریف شمار کیا جاتا ہے اور آخر کیوں نہ ہو؟ کرس گیل، مارلون سیموئلز،ڈیوین براوو اور کپتان ڈیرن سیمی جیسے خطرناک کھلاڑی جو موجود ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی چل گیا تو بیڑا پار ہے جناب! سیمی گو کہ ٹھنڈے مزاج کے لگتے ہیں لیکن بلے بازی میں ہر گز ایسے نہیں۔ 60 مقابلوں میں 526 رنز اور 43 وکٹیں ان کی آل راؤنڈ صلاحیتیں بیان کرنے کے لیے کافی ہیں۔ پھر ان کی قیادت میں ویسٹ انڈیز 2012ء میں ورلڈ ٹی ٹوئنٹی جیت بھی چکا ہے۔ اس لیے ویسٹ انڈیز کو ہر گز نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے۔

مشرفی مرتضیٰ

دو سال، بلکہ ایک ڈیڑھ سال، پہلے تک بھی بنگلہ دیش کو کوئی خاطر میں نہیں لاتا تھا لیکن عالمی کپ کے کوارٹر فائنل تک رسائی اور اس کے بعد پاکستان، بھارت اور جنوبی افریقہ کو ایک روزہ سیریز میں شکست دینے کے بعد بنگلہ دیش اب بلند حوصلہ کھلاڑیوں کا ایک دستہ بن چکا ہے۔ ابھی ایشیا کپ میں پاکستان اور سری لنکا کو شکست دے کر اس نے مستقل مزاجی کا ثبوت بھی دیا ہے اور ورلڈ ٹی ٹوئنٹی سے قبل خطرے کی گھنٹی بھی بجا دی ہے۔ اس میں اہم کردار کپتان مشرفی مرتضیٰ کا ہے۔ جو ٹی ٹوئنٹی طرز میں 335 رنز اور 35 وکٹیں رکھتے ہیں لیکن ان کی ذاتی کارکردگی کے بجائے اصل چیز ہے کھلاڑیوں کو لڑانا اور یہ کام مشرفی بخوبی کر رہے ہیں۔ بنگلہ دیش گو کہ پاکستان، بھارت، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے خطرناک گروپ میں ہے لیکن اس مرتبہ ان سے خطرہ ہے کہ وہ ایک یا اس سے زیادہ اپ سیٹ بھی کر جائیں گے اور اس کا تمام تر سہرا مشرفی کو جاتا ہے۔

کاغذ پر، اعداد و شمار کی نظر سے، حالات کے تناظر میں باتوں کی یقیناً اہمیت ہوتی ہے لیکن اصل چیز یہ ہے کہ کھیل کے دن اور مقام پر کون حوصلہ پکڑتا ہے اور ڈٹ کر کھیلتا ہے۔ ایسا جو بھی کرے گا وہ 3 اپریل کو ایڈن گارڈنز میں ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کی خوبصورت ٹرافی اٹھائے گا۔