پہلا سیمی فائنل، "ناقابل شکست" نیوزی لینڈ بمقابلہ "بلند حوصلہ" انگلستان

0 1,187

ورلڈ ٹی ٹوئنٹی 2016ء کے سپر10 مرحلے کی تکمیل کے بعد اب چار بہترین ٹیمیں سیمی فائنل تک آ چکی ہیں۔ اب تک ناقابل شکست نیوزی لینڈ کو آج بڑے امتحان کا سامنا ہے کیونکہ اسے دہلی میں ہونے والے پہلے سیمی فائنل میں بلند حوصلہ انگلستان کا مقابلہ کرنا ہے۔ جہاں کامیابی حاصل کرنے والا سب سے بڑے مقابلے یعنی فائنل میں پہنچے گا۔

یقیناً سیمی فائنل میں پہنچنے والی چاروں ٹیموں میں سے نیوزی لینڈ سب سے بہتر دکھائی دیتا ہے کہ جسے اب تک ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں کوئی شکست نہیں دے سکا یہاں تک کہ میزبان اور "ہاٹ فیورٹ" بھارت بھی۔ نیوزی لینڈ کی کامیابی میں کردار محض ایک کھلاڑی یا شعبے کا نہیں بلکہ اس نے جامع ترین کارکردگی دکھائی ہے اور ہر مقابلے میں نئے کرداروں کی مدد سے فتوحات حاصل کی ہیں۔ جیسا کہ ناگ پور میں بھارت کے خلاف اسپن گیندبازوں نے کامیابی دلائی تو دھرم شالا میں تیز گیندباز مچل میک کلیناگھن نے آسٹریلیا کے خلاف فتح میں مرکزی کردار ادا کیا۔ موہالی میں پاکستان کے خلاف بلے بازوں نے موقع ضائع نہیں کیا تو کلکتہ میں 145 رنز کا دفاع کرتے ہوئے بنگلہ دیش کو صرف 70 رنز پر ڈھیر کیا۔ یعنی مختلف حالات اور وکٹوں میں نیوزی لینڈ نے ایسی کارکردگی دکھائی ہے، جو ظاہر کرتی ہے کہ مشین کا ہر ہر پرزہ بہترین کام کررہا ہے۔حیران کن بات یہ ہے کہ یہ سب اس نیوزی لینڈ نے کر دکھایا ہے جس نے 2014ء کے بعد سے برصغیر میں کوئی مقابلہ نہیں کھیلا۔

ویسے برینڈن میک کولم کی ریٹائرمنٹ کے بعد خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا کہ کین ولیم سن شاید اتنی بھاری ذمہ داری نہ نبھا پائیں۔ پھر برصغیر میں نیوزی لینڈ کا ریکارڈ بھی مایوس کن رہا ہے، لیکن ولیم سن نے تمام خدشات کو غلط ثابت کر دکھایا ہے، کم از کم ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے سپر10 مرحلے تک تو ایسا ہی ہے۔ ولیم سن اور کوچ مائیک ہیسن کی جوڑی کی بدولت نیوزی لینڈ عالمی ٹی ٹوئنٹی چیمپئن بننے کے لیے مضبوط ترین امیدوار دکھائی دیتا ہے۔

Nathan-McCullum-Mitchell-Santner-Ish-Sodhi

دوسری جانب انگلستان ہے، جس نے پہلے مقابلے میں ویسٹ انڈیز کے ہاتھوں بری شکست سے آغاز لیا اور پھر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ ایون مورگن اور ان کے کھلاڑی سخت ترین مراحل سے گزرے، ہمت نہیں ہاری اور شکست سے بچنے کے لیے ہر جتن کرتے دکھائی دیے یہاں تک کہ جنوبی افریقہ کے خلاف 230 رنز کا بہت بڑا ہدف تک پار کرگئے۔ اس اہم مقابلے میں جب یہ ہمالیہ جیسا ہدف ملا تھا تو سب یہی سمجھ رہے تھے کہ انگلستان کا باہر ہونا اب یقینی ہے لیکن جو روٹ سمیت دیگر بلے بازوں نے ناممکن کو ممکن کر دکھایا۔ پھر افغانستان کے خلاف 142 رنز بنانے کے بعد بھی انگلستان مشکلات کا سامنا رہا لیکن کامیابی اسی کو ملی۔ ایسا ہی کچھ معاملہ سری لنکا کے مقابلے میں بھی رہا جہاں 171 رنز بنانے کے بعد حریف کی چار وکٹیں جلد حاصل کرلیں البتہ اینجلو میتھیوز کی اننگز نے مقابلے کو سنسنی خیز مرحلے میں داخل کردیا۔ یہاں شکست کا مطلب تھا انگلستان کا ورلڈ ٹی ٹوئنٹی سے اخراج، لیکن گیندبازوں نے اعصاب قابو میں رکھے اور 10 رنز سے کامیابی حاصل کرکے سیمی فائنل میں جگہ پا لی۔

اب فیروز شاہ کوٹلہ کے میدان پر انگلستان کو نیوزی لینڈ پر ایک برتری حاصل ہے، وہ یہاں پہلے ہی کھیل چکے ہیں جبکہ نیوزی لینڈ کا یہ دہلی میں پہلا تجربہ ہوگا۔

گزشتہ پانچ مقابلوں کی کارکردگی دیکھیں تو نیوزی لینڈ کا پلڑا بلاشبہ بھاری دکھائی دیتا ہے، اسے ان میں سے ایک بھی شکست نہیں ہوئی بلکہ گزشتہ 10 مقابلوں میں بھی وہ صرف ایک بار ہاری ہے۔ اس کے مقابلے میں انگلستان کو پانچ میں سے دو میچز میں شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ 2008ء سے 2013ء کے دوران انگلستان نے مسلسل چھ ٹی ٹوئنٹی مقابلوں میں نیوزی لینڈ کو شکست دی ہے۔

گو کہ فیروز شاہ کوٹلہ کی وکٹ پر گھاس موجود ہے لیکن دہلی کی تاریخ کو مدنظر رکھا جائے تو مشکل ہے کہ تیز گیندبازوں کو کچھ مدد ملے۔ اس میدان پر کھیلے گئے گزشتہ دونوں مقابلوں میں وکٹ سست رہی ہے، اور بہت زیادہ اسپن بھی نہیں کیا۔

اب آئیے دیکھتے ہیں کہ دونوں میں سے کون کامیاب و کامران ہو کر لوٹتا ہے؟