ورلڈ ٹی ٹوئنٹی، ویسٹ انڈین کھلاڑیوں کے لیے بورڈ کا انعام
ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں شاندار کامیابی کے بعد ڈیرن سیمی کی دھواں دار اور جذباتی تقریر نے اپنا اثرات دکھانا شروع کردیے ہیں۔ کہاں ناراض بورڈ اور کہاں اتنی بڑی پیشکش ہے کہ جیتی گئی پوری 1.6 ملین ڈالرز کی رقم کو کھلاڑیوں میں تقسیم کرنے کا اعلان۔ کہنا تو یہی چاہیے کہ "سب کچھ لٹا کے ہوش میں آئے تو کیا ہوا"، لیکن خیر، اس پیشکش کو کھلاڑیوں اور بورڈ کے درمیان تنازع کے خاتمے کی آخری اور سنجیدہ کوشش ضرور کہا جا سکتا ہے۔
ویسٹ انڈیز کے کھلاڑیوں اور بورڈ کے درمیان تنازع کافی عرصے سے ہے اور ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں یہ اپنے عروج پر دکھائی دیا۔ فائنل کے بعد فاتحانہ تقریر میں کپتان ڈیرن سیمی یہ تک کہہ گئے کہ بورڈ کا رویہ توہین آمیز ہے۔ اس پر بورڈ کے چیف ایگزیکٹو مائیکل میورہیڈ کا ردعمل حوصلہ افزا ضرور تھا کہ فریقین کے معاملات بہتری کی جانب بڑھ رہے ہیں لیکن یہ اس امر کی چغلی بھی کھا رہا تھا کہ تنازع ضرور موجود ہے۔
اب جبکہ معاملہ ساری دنیا کے سامنےآ چکا ہے، مائیکل میورہیڈ نے تسلیم کیا کہ ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے آغاز پر اختلافات ضرور تھے مگر اب ہم انہیں حل کرنے کے قریب پہنچ چکے ہیں۔ لیکن سیمی نے اپنی تقریر میں جو کچھ کہا وہ اس بیان کے برعکس ہے۔ فاتح کپتان نے اپنی تقریر میں ٹیم کی حوصلہ افزائی پر کئی شخصیات اور افراد کا شکریہ ادا کیا لیکن کرکٹ بورڈ کی خاموشی پر کڑی تنقید کی۔
سیمی کے بیان پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے جہاں میورہیڈ نے مردوں اور خواتین دونوں کو عالمی چیمپئن بننے پر مبارکباد دی وہیں پر یہ بھی کہا کہ یہ بات غلط ہے کہ اس جیت میں بورڈ کا کوئی حصہ نہیں، وہ بھی اس کامیابی میں برابر کا مستحق ہے۔
مائیکل میورہیڈ نے کہا کہ یہ کامیابی اچانک نصیب نہیں ہوئی، اس کے پیچھے بوڈ کی طویل منصوبہ بندی اور محنت بھی کارفرما ہے۔ ٹیم کے انتخاب سے لے کر ٹورنامنٹ کی تیاری تک بہت سا سرمایہ اور صلاحیتیں استعمال ہوئی ہیں۔ انہوں نے مستقبل کے حوالے سے کہا کہ ہم نچلی سطح پر کرکٹ کو منظم کرنے اور ایک نظام کے تحت نئے کھلاڑیوں کی تیاری کے منصوبے بنا رہے ہیں، جس پر کوششیں مزید تیز کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اختلافات ختم کرنا ہوں گے کیونکہ یہ ویسٹ انڈیز کے کھلاڑیوں اور کرکٹ کے مفاد میں نہیں ہیں۔