اینڈرسن پاکستان کے لیے خطرے کی گھنٹی بن گئے

1 1,080

ہیڈنگلے ٹیسٹ کے ساتھ ہی بین الاقوامی کرکٹ "آگئی میدان میں" لیکن مایوسی ہوئی کہ یہ مکمل طور پر یکطرفہ اور مختصر ترین مقابلہ رہا۔ پہلے دن کے پہلے سیشن میں تین وکٹیں گرنے کے بعد جب انگلستان صرف 83 رنز پر آدھی ٹیم سے محروم ہوچکا تھا تو اتنا اندازہ تو ہوگیا تھا کہ یہ ایک "لو اسکورنگ" مقابلہ ہوگا، لیکن فاتح ٹیم اننگز سے جیتے گی؟ یہ وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔

انگلستان نے جانی بیئرسٹو کی طوفانی سنچری اور ایلکس ہیلز کے بہترین ساتھ کی بدولت 298 رنز بنائے تو کسی نے ازراہ مذاق کہا کہ "بہت بن گئے، انگلینڈ کو اب دوبارہ بیٹنگ نہیں کرنا پڑے گی"۔ یہ مذاق بعد میں حقیقت بن گيا۔ جیمز اینڈرسن کی باؤلنگ کے سامنے سری لنکا پہلی اننگز میں صرف 91 اور پھر 'فالو آن' میں 119 رنز پر ڈھیر ہوگیا۔ 'جمی' نے پورے میچ میں صرف 45 رنز دے کر 10 وکٹیں حاصل کیں۔ یہ نظارہ ایبٹ آباد میں زیر تربیت پاکستانی بیٹسمینوں نے بھی دیکھا ہوگا اور یقیناً تھوک نگل کر حلق تر کرنے کی کوشش کررہے ہوں گے کیونکہ "خطرے کی گھنٹی بج چکی ہے۔"

سری لنکا کا ناتجربہ کار و نو آموز دستہ انگلینڈ کے جانے مانے باؤلنگ اٹیک کا خم ٹھونک کر مقابلہ کرے گا، ایسا سوچا تو نہیں گیا تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ صرف تین دن میں مقابلہ ختم ہونے کی توقع کسی کو نہیں تھی۔ بعد از سنگاکارا و جے وردھنے عہد سے گزرنے والا سری لنکا اب سخت مشکلات سے دوچار ہے۔ پہلے مرلی دھرن کی ریٹائرمنٹ سے باؤلنگ کمزور ہوئی اور اب "لیجنڈری جوڑی" کی روانگی سے بیٹنگ بحران عروج پر ہے اور ہیڈنگلے ٹیسٹ نے اسے ثابت کیا ہے۔ گو کہ پاکستان کے سر پر ابھی "بزرگوں کا سایہ" موجود ہے، یعنی مصباح الحق اور یونس خان اب بھی ٹیسٹ کرکٹ کھیل رہے ہیں، لیکن اس کے باوجود انگلستان کے دورے پر کچھ اچھا ہونے کی امید بہت کم ہے۔ کیوں؟ پاکستان نے پچھلے 20 سالوں میں انگلینڈ میں کوئی ٹیسٹ سیریز نہیں جیتی بلکہ آخری دونوں دورے انتہائی متنازع انداز میں ختم ہوئے۔ 2006ء میں اوول تنازع اور 2010ء میں اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل۔

پاکستان نے ان بڑے تنازعات بلکہ "سانحات" کے بعد سے اب تک دو مرتبہ 2012ء اور 2015ء میں انگلستان کو یادگار شکستیں دی ہیں لیکن متحدہ عرب امارات اور انگلستان کی کنڈیشنز میں بہت فرق ہے۔ پھر اینڈرسن کے مقابلے میں تو پاکستان کے بلے بازوں کی حالت ویسے ہی قابل دید رہی ہے۔ 2015ء میں ہونے والی سیریز کے صرف تین میچز میں اینڈرسن نے 15.61 کے اوسط سے 13 وکٹیں حاصل کیں۔ جی ہاں! عرب امارات کی ان وکٹوں پر جہاں کسی تیز باؤلر کو کوئی مدد نہیں مل رہی تھی، اینڈرسن نے پہلے ٹیسٹ میں 4، دوسرے میں 3 اور تیسرے میں 6 وکٹیں حاصل کیں۔ اینڈرسن نے پاکستان کے خلاف کل 10 ٹیسٹ کھیلے ہیں جن میں صرف 17 کے اوسط سے 45 کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا ہے۔ صرف 17 رنز دے کر 6 وکٹیں اننگز میں ان کی بہترین باؤلنگ کارکردگی ہے جبکہ میچ میں انہوں نے 71 رنز دے کر 11 شکار تک کر رکھے ہیں۔ یعنی ہم کہہ سکتے ہیں کہ اینڈرسن پاکستان کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہوں گے۔

پاکستان اور انگلستان کے مابین چار ٹیسٹ میچز کی سیریز 14 جولائی سے لارڈز میں شروع ہوگی اور 11 اگست کو اوول میں آخری ٹیسٹ تک جاری رہے گی۔ درجہ بندی میں عالمی نمبر تین، اور انگلستان کو مسلسل دو باہمی سیریز ہرانے کے بعد کیا پاکستان حریف کو اس کے میدان میں جاکر پچھاڑ سکے گا؟ ہمارا جواب ہے، اگر جمی اینڈرسن پر قابو کرلیا تو ضرور۔