بھارت کے نئے کھلاڑی: کہانی محنت، استقامت اور ثابت قدمی کی
بھارت نے زمبابوے اور ویسٹ انڈیز کے دورے کے لیے دستے کا اعلان کردیا ہے کہ جہاں ٹیم تین ایک روزہ اور تین ٹی ٹوئنٹی کھیلنے کے بعد کیریبیئن جزائر پہنچے گی جہاں چار ٹیسٹ کھیلے جائیں گے۔
کھیل پر کڑی نگاہیں رکھنے والوں کے لیے بھارتی دستوں میں مستقبل کی جھلک موجود ہے۔ اکتوبر 2015ء میں جنوبی افریقہ کی آمد سے لے کر اب تک بھارت بہت سخت شیڈول کا سامنا کرتا آ رہا ہے اور آگے بھی حالات ایسے ہی ہیں۔ ویسٹ انڈیز کے دورے کے بعد اسے بنگلہ دیش، نیوزی لینڈ، انگلستان اور آسٹریلیا کی میزبانی کرنی ہے جس میں 13 ٹیسٹ میچز کھیلے جائیں گے۔ ابھی بھارت اس پورے ہنگامے سے نمٹے گا ہی کہ ایک مرتبہ پھر انڈین پریمیئر لیگ (آئی پی ایل) آ جائے گی۔
اس صورت حال میں یہ یقینی تھا کہ بھارت زمبابوے کے دورے کے لیے دوسرے درجے کا اسکواڈ بھیجے گا۔ ممبئی میں قومی سلیکشن کمیٹی کا اجلاس ہوا تو سب کے ذہن میں چند سوالات تھے۔ آرام کا کس کو موقع دیا جائے گا؟ ڈومیسٹک کارکردگی کو ترجیج دی جائے گی یا آئی پی ایل پرفارمنس کو؟ کیا ڈومیسٹک میں کارکردگی دکھانے والے تجربہ کار کھلاڑیوں کو خود کو ثابت کرنے کا موقع ملے گا؟
پھر سلیکٹرز نے زمبابوے کے لیے 16 رکنی دستے کا اعلان کیا اور اس میں چھ ایسے کھلاڑی تھے جنہوں نے بھارت کے لیے کبھی کوئی بین الاقوامی مقابلہ نہیں کھیلا۔ توقعات کے مطابق لوکیش راہل، جسپریت بمراہ، منیش پانڈے، کرون نائر، بریندر سرن، کیدر جادھو اور امباتی رائیڈو کو منتخب کیا گیا ہے۔ سوراشٹر کی جانب سے بہترین ڈومیسٹک سیزن کھیلنے والے جے دیو انڈکٹ بھی واپس آئے ہیں۔
اب چھ ایسے کھلاڑی ہیں جو پہلی بار بھارت کی نمائندگی کر سکتے ہیں۔ یہ وہ کھلاڑی ہیں جنہوں نے مختلف سطح کی کرکٹ میں سب کو متاثر کیا ہے، چاہے وہ رنجی ٹرافی ہو، ایرانی ٹرافی یا پھر انڈین پریمیئر لیگ۔ یہ ان کے صبر، ثابت قدمی اور حوصلہ نہ ہارنے کا پھل ہے۔
فیض فضل
30 سالہ فیض ہو سکتا ہے کوئی بہت متاثر کن انتخاب نہ لگیں لیکن ان کی کہانی سننے کے لائق ہے۔ فیض نے کچھ آئی پی ایل بھی کھیلی ہے، راجستھان رائلز کے لیے، لیکن وہ ہمیشہ نظروں میں رہے ہیں۔ گزشتہ سیزن ان کے لیے نمایاں رہا ہے۔ جس کے دوران انہوں نے ودھربا کے لیے رنجی ٹرافی میں 559 رنز بنائے، پھر وجے ہزارے ٹرافی میں مزید 312 رنز بنائے اور بھارت 'اے' کو دیودھر ٹرافی جتوانے کے لیے 100 رنز کا حصہ ڈالا۔ لیکن ان کی بہترین کارکردگی ایرانی ٹرافی کے فائنل میں تھی۔ 297 رنز کے خسارے کے بعد ریسٹ آف انڈیا کو 480 رنز کا غیر معمولی ہدف درکار تھا۔ جب کوئی امکان نہیں تھا تو فیض فضل کے 127 رنز بنا کر وہ بنیاد فراہم کی جس کی مدد سے ٹیم ٹرافی تک پہنچ گئی۔ 2016ء کی آئی پی ایل میں کسی نے فضل کو نہیں خریدا تھا، اس لیے وہ نہیں کھیلے لیکن ان کی پچھلی کارکردگی بھلائی نہیں گئی۔
جاینت یادو
ہریانہ سے تعلق رکھنے والے جاینت یادو ایک قابل بھروسہ آل راؤنڈر ہیں، جو مڈل آرڈر میں بلے بازی کرتے ہیں اور آف اسپن باؤلنگ بھی۔ گزشتہ رنجی سیزن میں انہوں نے 19 وکٹیں بھی حاصل کیں اور 298 رنز بھی بنائے۔ وجے ہزارے ٹرافی میں انہوں نے چھ مقابلوں میں 8 وکٹیں لیں لیکن اس سے زیادہ اہم ان کا اکانمی ریٹ تھا، جو محض 2.77 رنز تھا۔ اس کے بعد انہوں نے ایرانی ٹرافی میں آٹھ وکٹیں حاصل کیں اور پھر 2016ء آئی پی ایل کے لیے دہلی ڈیئرڈیولز کے رکن بنے۔ سال کا سب سے بڑا انعام اب انہیں بھارت کے لیے منتخب ہو کر ملا ہے۔
یزویندر چہل
2014ء میں یزویندر ایک عام لیگ اسپنر سمجھے جاتے تھے، جو ممبئی انڈینز کے مقابلوں میں صرف کھلاڑیوں کو پانی پلاتے دکھائی دیتے اور شاذونادر ہی انہیں کوئی مقابلہ کھلایا جاتا۔ لیکن 2013ء کی چیمپئنز لیگ ٹی ٹوئنٹی سے سب کی نظریں ان پر جم گئیں، جہاں انہوں نے ممبئی کو کامیابی کی منزل تک پہنچایا۔ 2014ء میں وہ ممبئی انڈینز سے رائل چیلنجرز بنگلور منتقل ہوگئے جہاں نمایاں اسپنر ثابت ہوئے۔ ڈینیل ویٹوری اور کپتان ویراٹ کوہلی کی مدد سے وہ بنگلور کے باصلاحیت ترین کھلاڑیوں میں شامل ہونے لگے۔ 2015ء میں ان کی 23 وکٹیں آر سی بی کو پلے آف مرحلے تک لائیں اور اس وقت بھی وہ 19 وکٹوں کے ساتھ نمایاں باؤلرز میں شامل ہیں۔
مندیپ سنگھ
25 سالہ مڈل آرڈر بیٹسمین مندیپ نے بھی آر سی بی کے ذریعے اپنے کیریئر کو ڈوبنے سے بچایا۔ 2010ء انڈر 19 بھارتی ٹیم سے سامنے آنے والے مندیپ کنگز الیون پنجاب کی جانب سے ناکام دور گزارنے کے بعد ہمیشہ کے لیے کھو جاتے لیکن 2015ء کی آئی پی ایل میں عمدہ کارکردگی انہیں واپس لے آئی۔ اس کے بعد پنجاب کے لیے رنجی ٹرافی میں عمدہ کارکردگی اور وجے ہزارے ٹرافی میں 65 سے زیادہ کے اوسط کے ساتھ 394 رنز نے انہیں مزید تقویت عطا کی۔ زخمی ہونے کی وجہ سے وہ 2016ء آئی پی ایل میں نمایاں نہ ہو سکے لیکن اب ملک کی نمائندگی کے لیے تیار دکھائی دیتے ہیں۔
"کرناٹک کی جوڑی" لوکیش راہل اور کرون نائر
ان دو کے بارے میں بہت زیادہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ کرناٹک سے تعلق رکھنے والی یہ جوڑی بھارت کے لیے منتخب بھی ہو چکی ہے اور کھیل بھی چکی ہے۔ راہل نے بھارت کے لیے ٹیسٹ کرکٹ کھیلی ہے جبکہ کرون گزشتہ سال دورۂ سری لنکا کے لیے منتخب ہوئے تھے۔ لیکن ایک روزہ اور ٹی ٹوئنٹی میں دونوں اب تک ملک کی نمائندگی نہیں کر سکے۔ دونوں بلے باز ہر سطح پر غیر معمولی کارکردگی دکھاتے آئے ہیں، چاہے وہ رنجی ٹرافی ہو، وجے ہزارے، ٹی ٹوئنٹی ڈومیسٹک، سید مشتاق علی ٹرافی یا پھر آئی پی ایل۔ وہ عرصے سے ملک کے لیے منتخب ہونے والے تھے اور اس کے حقدار تھے۔
شردل ٹھاکر
سلیکٹرز نے ویسٹ انڈیز کے دورے کے لیے 17 رکنی دستہ بھی نامزد کیا۔ گو کہ زیادہ تر کھلاڑی توقعات کے مطابق ہی منتخب ہوئے ہیں لیکن ممبئی کے 24 سالہ شردل ٹھاکر واحد نیا نام ہیں۔ ٹھاکر ممبئی کے لیے ایک شاندار رنجی سیزن کی بنیاد پر منتخب ہوئے ہیں اور وہ اپنی ٹیم کی ٹائٹل کامیابی میں مرکزی کردار تھے۔ جارح مزاج شردل گیند کو دونوں جانب سوئنگ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ انہوں نے 24 کے اوسط سے 41 وکٹیں حاصل کیں۔ وہ پہلے بھی سیزن میں 48 وکٹیں حاصل کر چکے ہیں۔
مستقل کارکردگی دکھانے والے متعدد کھلاڑیوں کو اب موقع مل چکا ہے اب یہ ان پر منحصر ہے کہ وہ اس موقع کا کس طرح فائدہ اٹھاتے ہیں۔