دورۂ انگلستان: پاکستان وہ کرسکتا ہے جو جنوبی افریقہ اور آسٹریلیا نہ کر سکے

0 1,036

تاریخی لحاظ سے دیکھیں تو شاید ہی پاکستان کے لیے انگلستان کے دورے سے زیادہ مشکل کوئی مرحلہ ہو۔ 1992ء کے بال ٹمپرنگ تنازع سے لے کر 2010ء میں اسپاٹ فکسنگ تک تقریباً ہر بار اس دورے میں کوئی نیا "گُل" کھلا ہے۔ اس مرتبہ کیا ہوگا؟ فی الحال تو کچھ کہنا مشکل ہوگا کیونکہ ابھی تک سب کی نظریں امکانات و خدشات پر ہیں۔ ذہن میں کئی سوالات ہیں جن کے جوابات اس سیریز میں ملیں گے، جیسا کہ ہو سکتا ہے کہ یہ مصباح الحق کی آخری سیریز ہو، کیا وہ اسے یادگار بنا سکیں گے؟ دنیا بھر میں کارنامے دکھانے والے یونس خان انگلش سرزمین پر کیا کریں گے؟ اور سب سے بڑھ کر نئے کوچ مکی آرتھر کی پہلی مہم کیسی رہے گی؟ وہ تو کہتے ہیں کہ پاکستان میں اتنی صلاحیت ہے کہ ٹیم وہ سب کچھ کر سکتی ہے جو آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ نہیں کرسکا۔

سیریز سے چند روز پہلے پاکستان کی کوچنگ جیسا "کانٹوں کا تاج" پہننے والے مکی آرتھر کہتے ہیں کہ وہ ماضی میں آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ دونوں کی کوچںگ کر چکے ہیں لیکن جو صلاحیتیں پاکستان کے پاس ہیں وہ ان کے لیے حیران کن ہیں اور ایسے گن انہوں نے پہلی دونوں ٹیموں میں بھی نہیں دیکھے تھے۔

2005ء میں مکی آرتھر کو غیر متوقع طور پر جنوبی افریقہ کا عبور کوچ بنایا گیا تھا جو بڑھتے بڑھتے پانچ سال پر محیط ہوگیا۔ بعد ازاں آسٹریلیا کی کوچنگ ملی جو متنازع انداز میں اختتام کو پہنچی۔ اب پاکستان کی کوچنگ سنبھالتے ہی انہوں نے یہ دعویٰ کیا ہے اور اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں اس مہارت و صلاحیت کے ساتھ مستقل مزاجی کو بھی شامل کرنا چاہتا ہوں۔ میں نے محمد عامر اور سہیل خان کو دیکھا کہ وہ دو آؤٹ سوئنگ گیندیں پھینکنے کے بعد ہی ان سوئنگ پھینکتے ہیں۔ میں نے انہیں کہا کہ اپنی لائن کو ذرا زیادہ دیر تک قابو میں رکھیں۔ انہوں نے کہا کہ صبر آزمائی اور مستقل مزاجی کی کمی ہے لیکن صلاحیتوں میں کوئی کمی نہیں بلکہ اس میں پاکستان دیگر ٹیموں سے کہیں آگے ہے۔ کارکردگی میں بہتری کے لیے مہارت اور صبر آزمائی دونوں میں اضافے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

جوہانسبرگ میں پیدا ہونے والے مکی آرتھر گزشتہ کوچنگ تجربات کی روشنی میں پاکستان کے لیے کردار ادا کرنے کے خواہاں ہیں لیکن وہ فطری صلاحیت سے انحراف نہیں چاہتے بلکہ ٹیم کی صلاحیتوں میں معاون و مددگار بننے کی کوشش کررہے ہیں۔ "کوچ کی حیثیت سے میں تجربات سے سیکھتا ہوں لیکن میں اپنا انداز تبدیل نہیں کر سکتا کیونکہ اپنے بنیادی اقدار اور اصولوں پر سمجھوتا نہیں کرنا چاہیے۔

انگلستان و پاکستان کے درمیان ٹیسٹ سیریز کا آغاز 14 جولائی سے لارڈز کے تاریخی اسٹیڈیم میں ہوگا۔ سیریز چار ٹیسٹ مقابلوں پر مشتمل ہوگی۔