لارڈز کا آسیب لارڈز ہی میں دفنا دیا گیا

0 1,590

"کرکٹ کے گھر" لارڈز میں پاکستان کو چھ سال پہلے جس ذلت و ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا تھا، جو آسیب کی طرح پاکستان کو چمٹ گئی تھی، بالآخر اس خاک کو وہیں پہنچا دیا گیا ہے، جہاں کا خمیر تھا۔ ذرا اس دن کا تصور کیجیے کہ جب اسپاٹ فکسنگ معاملہ منظر عام پر آنے کے بعد کسی پاکستانی کھلاڑی کی ہمت نہیں تھی کہ وہ کسی سے نظریں ملائے اور شعیب اختر کی آپ بیتی "Controversially yours" کے مطابق یہ خطرہ تھا کہ کہیں کوئی کھلاڑی خودکشی نہ کرلے، اور اس کے مقابلے میں اب کہاں یہ منظر کہ پاکستانی کھلاڑی اسی میدان پر منفرد انداز میں جشن منا رہے ہیں اور ڈنڈ پیل رہے ہیں۔ گویا سر پر ایک قرض تھا، جو اتار دیا۔

لارڈز کا میدان پاکستان کے لیے ہمیشہ مہربان نہیں رہا۔ یہاں پاکستان نے ملے جلے نتائج دیے ہیں۔ ایک طرف پاکستان 1999ء کے ورلڈ کپ فائنل میں یہاں بدترین شکست سے بھی دوچار ہوا تو اسی مقام پر 2009ء میں ورلڈ ٹی ٹوئنٹی چیمپئن بھی بنا۔ 2010ء میں اسپاٹ فکسنگ جیسے قبیح فعل میں "جائے وقوعہ" یہی تھی اور اب ایک یادگار کامیابی کا مقام بھی "کرکٹ کا گھر" ہی ہے۔ اس میدان کو دنیائے کرکٹ میں جو لافانی حیثیت حاصل ہے، اس کی وجہ سے یہاں کھیلنے کو بھی بڑا اعزاز سمجھا جاتا ہے۔ دہائیوں تک کھیل کے تمام عالمی معاملات یہیں سے چلائے جاتے تھے یہاں تک کہ بین الاقوامی کرکٹ کونسل کا دفتر دبئی منتقل ہوا۔

پاکستان نے اب تک یہاں کیا کچھ کیا ہے، آئیے مختصراً دیکھتے ہیں۔ پاکستان نے 'کرکٹ کے گھر' میں اپنا پہلا ٹیسٹ 1954ء میں اپنے دورے پر ہی کھیلا تھا۔ یہ پہلا پاک-انگلستان مقابلہ بھی تھا۔ اس تاریخی مقابلے کی مایوس کن بات یہ تھی کہ یہاں پہلے تین دن تک بارش کی وجہ سے ایک گیند تک نہ پھینکی جا سکی۔ چوتھے روز جتنا کھیل کھیلا گیا اس میں باؤلرز کے لیے سازگار حالات میں صرف 50 رنز پر پاکستان کی تین وکٹیں گرگئیں۔ پانچواں دن تو اس سے بھی زیادہ "بھیانک" تھا۔ صرف 87 رنز پر پاکستان کے تمام کھلاڑی آؤٹ ہوگئے۔ کمزوریاں کھل کر سامنے آ گئیں لیکن جب گیند پاکستان کے ہاتھ میں آئی تو سب کو پاکستان کا تابناک مستقبل نظر آ گیا۔ خان محمد اور فضل محمود نے صرف 31 اوورز میں انگلستان کی مشہور زمانہ بیٹنگ لائن کو لپیٹ دیا۔ انگلستان صرف 117 رنز بنا سکا جواب میں پاکستان تین وکٹوں پر 121 رنز تک پہنچا اور مقابلے کا وقت ختم ہوگیا۔ یوں یہ مقابلہ بارش کی وجہ سے نتیجہ خیز نہ ہو سکا۔

اس کے بعد پاکستان نے 1978ء تک یہاں پانچ ٹیسٹ میچز کھیلے اور کوئی بھی جیت نہ سکا۔ دو میں اسے شکست ہوئی، یہاں تک کہ 1978ء والے ٹیسٹ میں اننگز اور 120 رنز کے بڑے فرق سے ہارا۔ تین مقابلے بغیر کسی نتیجے تک پہنچے تمام ہوئے۔

zaheer-abbas

پاکستان کو لارڈز میں پہلی کامیابی 1982ء میں نصیب ہوئی۔ یہ وہی مقابلہ تھا کہ جس میں محسن خان نے ڈبل سنچری بنائی تھی اور پاکستان نے انگلستان کو فالو آن کا شکار کردیا تھا۔ انگلستان بمشکل دو اننگز کھیل کر پاکستان کو 76 رنز کا ہدف دے سکا جو بغیر کسی نقصان کے حاصل کرلیا گیا۔ کامیابی سے سیریز تو برابر ہوگئی لیکن حتمی و فیصلہ کن مقابلے میں پاکستان کو شکست ہوئی اور یوں اس مرتبہ لارڈز تو فتح کرلیا گیا، لیکن سیریز جیتنے کا خواب پورا نہیں ہو سکا۔

یہ ارمان پاکستان نے 1992ء میں پورے کیے۔ نئے نویلے ورلڈ چیمپئن کی حیثیت سے سرزمین انگلستان پر قدم رکھتے ہی اندازہ ہوگیا تھا کہ دنیا کی کوئی طاقت پاکستان کے قدم نہیں روک سکتی۔ پہلا ٹیسٹ نتیجہ خیز ثابت نہ ہونے کے بعد دوسرے ٹیسٹ کے لیے 18 جون کو پاکستان نے لارڈز میں قدم رکھے۔ انگلستان نے 123 رنز کی شراکت کے ذریعے بہترین آغاز لیا لیکن وقار یونس کی تباہ کن باؤلنگ نے اسے 255 رنز تک محدود کردیا۔ پاکستان نے عامر سہیل، آصف مجتبیٰ اور سلیم ملک کی نصف سنچریوں کی مدد سے 293 رنز بنائے۔ دوسری اننگز میں گو کہ انگلستان 175 رنز پر آؤٹ ہوگیا لیکن 138 رنز کا معمولی ہدف پاکستان کے لیے "نانگا پربت" جیسا مشکل بن گیا۔ رمیز راجہ، آصف مجتبیٰ اور کپتان جاوید میانداد صفر کی ہزیمت سے دوچار ہوئے۔ صرف 18 رنز پر یہ تینوں وکٹیں گرچکی تھیں۔ یہاں تک کہ 68 رنز تک پہنچتے پہنچتے 39 رنز بنانے والے عامر سہیل سمیت چھ بلے باز آؤٹ ہو چکے تھے۔ یہاں وسیم اکرم اور وقار یونس نے نویں وکٹ پر اپنا کمال دکھایا۔ یعنی باؤلنگ بھی "ٹو ڈبلیوز" کے دم خم سے تھی اور بلے بازی بھی انہوں نے ہی دکھائی۔ دونوں نے نویں وکٹ پر 46 رنز کا اضافہ کیا اور پاکستان نے صرف دو وکٹوں سے مقابلہ جیت لیا۔ وسیم اکرم 45 اور وقار 20 پر ناٹ آؤٹ میدان سے واپس آئے۔ اس کامیابی کے بعد پاکستان نے بعد میں دو-ایک سے سیریز بھی جیتی۔ اسے اگر ہم لارڈز کے میدان پر پاکستان کی سنسنی خیز ترین فتح کہیں تو غلط نہیں ہوگا۔

wasim-akram

اس کے بعد 1996ء وہ آخری موقع تھا جب پاکستان نے لارڈز کو فتح کیا۔ 340 رنز بنانے کے بعد پاکستان نے انگلستان پر پہلی اننگز میں 55 رنز کی برتری حاصل کی اور پھر مزید 352 رنز جوڑ کر 408 رنز کا ناقابل عبور ہدف دیا۔ دوسری وکٹ پر 154 رنز کی رفاقت کے باوجود انگلستان کے لیے یہ ہدف حاصل کرنا ممکن نہیں تھا یہاں تک کہ پوری ٹیم 243 رنز پر ڈھیر ہوگئی۔ وقار یونس نے میچ میں آٹھ وکٹیں حاصل کیں اور مرد میدان قرار پائے۔

waqar-younis

اس کے بعد 2001ء، 2006ء اور 2010ء میں تینوں مرتبہ پاکستان کو انگلستان کے ہاتھوں شکست ہوئی بلکہ 2010ء کی اس بدنام زمانہ سیریز سے پہلے آسٹریلیا کے خلاف جو دو ٹیسٹ کھیلے گئے تھے ان میں سے لارڈز والے میں بھی شکست کا منہ دیکھنا پڑا تھا۔ یعنی اکیسویں صدی میں سوائے 2006ء والے مقابلے کے تمام لارڈز ٹیسٹ مقابلوں میں پاکستان کو شکست ہوئی تھیں اور وہ بھی بہت بری طرح۔

پاکستان نے لارڈز میں کل 15 مقابلے کھیلے ہیں اور مصباح الیون کے تازہ ترین کارنامے کو ملا کر صرف چار مرتبہ کامیابی حاصل کی ہے۔ پانچ مقابلوں میں پاکستان کو شکست کا سامنا کرنا پڑا اور تمام ہی شکستیں بہت بڑے مارجن سے تھیں۔ باقی مقابلے کسی نتیجے تک پہنچے بغیر ختم ہوئے۔

2010ء میں کھیلے گئے آخری لارڈز ٹیسٹ میں شکست تو اننگز اور 225 رنز جیسے بڑے فرق سے تھی ہی، لیکن اس سے بڑھ کر ساکھ کو جو نقصان پہنچا تھا، اس کے ازالے کے لیے پاکستان کو چھ سال انتظار کرنا پڑا۔ اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل کے بعد اب کہیں جاکر پاکستان کو لارڈز میں کھیلنے کا موقع ملا اور اس نے ماضی کے داغ دھو ڈالے۔ اب دنیا جب بھی پاکستان کو لارڈز کے ساتھ یاد کرے گی تو انہیں جاندار بیٹنگ، شاندار باؤلنگ اور ڈنڈ پیلنے والا زبردست جشن یاد آئے گا جس نے ویسٹ انڈیز کے کے "گینگ نیم اسٹائل" اور "چیمپئن، چیمپئن" کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔

team-pakistan-at-lords-2016